مرہٹے بہادر اور جنگجو تھے اور مغل افواج کو متعدد بار شکست دے چکے تھے ،لیکن جب ان کا سامنا احمد شاہ ابدالی سے ہوا تو مرہٹوں کے پاؤں اکھڑ گئے،اس جنگ میں مرہٹے ہمیشہ کی طرح پوری بہادری اور دلیری سے لڑے لیکن ان کے مقابل اس بار مغل نہیں بلکہ احمد شاہ ابدالی تھا ،اس جنگ نے مراہٹہ سلطنت کا کاتمہ کردیا ۔
ایک دلچسپ داستان
پانی پت کی تیسری لڑائی افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالیؒ اور مرہٹہ سلطنت کے سپہ سالار سداشو راؤ بھاؤ کے درمیان 14 جنوری 1761 کو دہلی سے 60 میل دور شمال میں واقع پانی پت کے تاریخی مقام پر ہوئی۔احمد شاہ ابدالیؒ ایک سچا اور کھرا، نیک سیرت، صالح، دلیر، جرا ت مند، حوصلہ مند اور مفاہمتی مسلمان حکمران، تجربہ کار جنگجو اور سپہ سالار تھا۔ احمد شاہ ابدالی جدید افغانستان کے بانی تھے۔ افغانی آپ کو احمد شاہ بابا کے نام سے پکارتے ہیں۔ مرہٹے ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ مرہٹے جنگجو اور بہادر لوگ تھے۔ مرہٹے، سکھ اور دیہاتی ہندو ساتھ مل گئے۔ ان کا ایک ہی مقصد تھا یعنی پہلے افغانوں کو پنجاب سے اور پھر مغلوں کو دہلی سے نکالنا۔ اس طرح وہ ہندوستان سے اسلامی سلطنت کی ہر علامت کو ختم کر کے مرہٹہ اور خالصہ راج قائم کرنا چاہتے تھے۔مرہٹوں نے درجنوں جنگوں میں مغلوں کو شکست دے دی۔ شہزادے جانشینی کی جنگیں لڑتے رہے اور مرہٹے اپنی فوجی طاقت بڑھاتے رہے یہاں تک کہ 1755 میں دہلی تک پہنچ گئے۔ مغل حکومت ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے۔ 1760 تک مرہٹے پاک و ہند کے بڑے حصے کو فتح کر چکے تھے۔ 1758 میں پنجاب کے اہم شہر امرتسر، پھر اسی سال لاہور، پشاور اور اٹک تک کے علاقے فتح کرلئے۔پنجاب سے افغانوں کے مکمل انخلا اور پشاور پر قبضے کے بعد مرہٹوں کی ہمت بہت بڑھ گئی۔ مرہٹوں کے سربراہ بالاجی پیشوا نے اپنے مرکز ”پونا“ میں تمام مرہٹے سردار جمع کر کے اپنے (یعنی مرہٹے ) اقتدار کو عروج تک لے جانے، زوال پذیر مغل سلطنت سے جلد از جلد نجات حاصل کرنے اور احمد شاہ ابدالی کا زور ٹوٹنے کے حوالے سے ایک بہت بڑا مشاورتی اجلاس طلب کیا۔اجلاس کے دوران سپہ سالار بھاؤ نے پرجوش لہجے میں کہا: ”محمود غزنوی کے حملوں سے ہمارے دلوں پر جو زخم لگے وہ صدیاں گزر جانے کے باوجود اب تک مٹے نہیں۔ ہم سومنات کی مورتی کی بے عزتی نہیں بولے۔ آج ہمارے پاس اتنی قوت ہے کہ ہم مسلمانوں سے بدلہ لے سکے۔ سومنات کی مورتی ہم شاہجہان کی تعمیر کردہ جامع مسجد دہلی کے ممبر پر نصب کریں گے اور افغانستان میں گھس کر محمود غزنوی کا مقبرہ مسمار کر دیں گے۔“بالاجی پیشوا نے اس کے جذبات کو سراہتے ہوئے کہا: ”میرا ارادہ تو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ میں ہندوستان کو مسلمانوں سے صاف کر دینے کے بعد ایسا انتظام کر دینا چاہتا ہوں کہ آئندہ کوئی مسلمان ہمارے ملک پر حملے کا تصور بھی نہ کر سکے۔“مشاورت میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پہلے دہلی پر حملہ کر کے مغل بادشاہ کی جگہ بالاجی پیشوا کے بیٹے بسواس راؤ کو تخت نشین کرایا جائے اور پھر فوج کی کمان بھاؤ کے ہاتھ میں دے کر وہ پنجاب کو روندتے ہوئے افغانستان میں داخل ہو جائے۔اس تاریخی مشاورت کے فیصلے نے ہندوؤں میں جوش اور امنگوں کی ایک لہر دوڑا دی اور ہر طرف سے مرہٹے سردار اپنی اپنی فوج لے کر پونا جمع ہونے لگے۔ ہندوؤں کو یقین تھا کہ عنقریب پوری دنیا کے مالک وہی ہوں گے، ہر طرف ان کے بتوں کی خدائی تسلیم کی جائے گی اور مسلمانوں کا نام و نشان تک باقی نہیں رہے گا۔ ہر نوجوان فوج میں بھرتی کے لئے بے چین تھا تاکہ کابل اور قندھار کی لوٹ مار میں اسے بھی حصہ مل سکے۔ان دنوں دہلی کے عظیم محدث حضرت شاہ ولی اللہ رح جنہوں نے برصغیر میں حدیث کی اشاعت میں سب سے بنیادی کردار ادا کیا تھا، مرہٹوں کے طوفان سے بڑا اندیشہ محسوس کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ احمد شاہ ابدالی ایک بار پھر ہندوستان آ کر یہاں کے مسلمانوں کا نجات دہندہ ثابت ہوں۔ ہندوستان کی سیاست کا اہم رکن نواب نجیب الدولہ بھی ان کا ہم فکر تھا۔ یہ احمد شاہ ابدالیؒ کے بڑے عقیدت مند تھے۔ اس سے قبل ابدالی یہاں چار بڑی مہمات کرچکا تھا۔ مگر اب حالات بتا رہے تھے کہ جب تک ہندوستان کے قلب میں گھس کر مرہٹوں کی کمر نہ توڑ دی جائے یہاں کے مسلمانوں کا مستقبل ہرگز محفوظ نہیں رہ سکتا۔
شاہ صاحب رح نے نواب نجیب الدولہ کی معرفت سے احمد شاہ ابدالیؒ کو مرہٹوں کے خلاف بھرپور حملے کی دعوت دی اور اپنے خط میں تحریر فرمایا:
”ہم اللہ بزرگ و برتر گھر کے نام پر آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ اس طرف توجہ فرما کر دشمنان اسلام سے جہاد کریں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں آپ کے نامہ اعمال میں اجر عظیم لکھا جائے اور آپ کا شمار اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں میں ہو جائے۔ آپ کو دنیا میں بے اندازہ غنیمتیں حاصل ہوں اور مسلمانوں کو کفار کے چنگل سے نجات حاصل ہو۔“
احمد شاہ ابدالیؒ کو مرہٹوں کے اس سیلاب کا علم ہو چکا تھا جو پونا سے پنجاب کے طرف امڈ رہا تھا۔ اب تک اسے اتنے بڑے لشکر سے مقابلے کا کوئی تجربہ نہیں ہوا تھا، اس لیے اپنے وطن سے سینکڑوں میل دور کمک کے بغیر ایک بہت بڑی اور غیر یقینی جنگ لڑنے کا تصور اس کے لیے پریشان کن تھا۔
حضرت شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے اسے تحریر فرمایا: ”مرہٹوں کو شکست دینا آسان کام ہے، شرط یہ ہے کہ مجاہدین اسلام کمر کس لیں۔ درحقیقت مرہٹے تعداد میں زیادہ نہیں مگر دوسرے بہت سے گروہ ان کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں۔ مرہٹہ قوم طاقتور نہیں ہے۔ ان کی توجہ بس اپنی افواج جمع کرنے پر ہے جو تعداد میں چیونٹیوں ٹڈیوں سے بھی زیادہ ہو۔ جہاں تک شجاعت اور عسکری ساز و سامان کا تعلق ہے وہ ان کے پاس زیادہ نہیں ہے۔“
حضرت شاہ صاحب کہ ان پرسوز، بصیرت افروز اور حوصلہ انگیز خطوط نے ابدالی کی ہمت کو مہمیز دی اور ملت اسلامیہ کا یہ شمشیر زن ہر خوف و خطر سے بے پرواہ ہو کر ہندوستان پر اس یادگار حملے کے لئے تیار ہو گیا جس نے تاریخ میں اس کا نام ہمیشہ کے لئے نقش کر دیا۔
احمد شاہ ابدالیؒ ستمبر 1759 میں قندھار سے 15 ہزار سواروں کے ساتھ مرہٹوں اور سکھوں کی فتنے کو تہہ تیغ کرنے کی مہم پر ہندوستان روانہ ہوئے۔ راستے میں بلوچستان اور اردگرد سے اور تیمور شاہ (جو احمد شاہ ابدالی کا بیٹا تھا) اور سابق حاکم لاہور جہان خان اپنی نفری کے ساتھ اس سے آ ملے اور سپاہی 30 ہزار تک پہنچ گئے۔ پنجاب کے نئے مرہٹہ حاکم نے افغان لشکر کی آمد کا سن کر لاہور خالی کر دیا اور اپنے جھتے سمیت سہارنپور میں سندھیا کے کیمپ میں پناہ لی۔ احمد شاہ کا لشکر پنجاب میں داخل ہوا تو سکھ اپنے گھروں میں دبک گئے۔
احمد شاہ مرہٹوں سے فیصلہ کن جنگ میں تاخیر نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اس سے پہلے اسے دہلی پہنچ کر مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کے اس قدیم مرکز کو مرہٹوں کی لوٹ مار سے بچانا تھا۔ وہ شاہ عالمگیر ثانی کے اقتدار کو بھی مضبوط کرنا چاہتا تھا مگر راستے میں اسے اطلاع ملی کہ دہلی کی سیاست میں اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو چکی ہے اور مغل بادشاہ، غازی الدین کی سازش کا شکار ہو کر مارا گیا ہے۔ یہ صورت حال ابدالی کے لیے غیر متوقع بھی تھی۔
اس وقت دشمن تین سمت سے ابدالی کی افواج کے گرد موجود تھا۔ دہلی میں غازی الدین اور مرہٹہ سردار جن کو راوجی، دیتاجی سندھیا دہلی کے راستے اور ہولکر دریائے جمنا کے ساحل پر اپنی فوج لیے کھڑا تھا۔ ابدالی سہارنپور پہنچا تو نواب نجیب الدولہ، حافظ رحمت خان، سعداللہ خان، عنایت خان، قطب خان اور دیگر روہیلہ امرا نے دس ہزار سپاہیوں کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ یہ چالیس ہزار کا لشکر دہلی کی طرف روانہ ہو گیا۔
جنوری 1760 کو دیتاجی سندھیا بیس ہزار لشکر کے ساتھ ابدالی فوج کے مقابلے پر نکل آیا، ایک خونریز معرکے کے بعد مسلمان فتح یاب ہوئے اور دیتاجی گھوڑے سے گر کر مارا گیا۔ اس شاندار فتح کے بعد احمد شاہ دہلی سے پانچ میل دور حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رح کے مزار پر حاضری دی۔ دہلی کی حفاظت کے لیے چند دن قیام کیا، پھر سرکش جاٹوں کے رہنما راجہ سورج مل کو سزا دینے کے لئے جنوب کا رخ کیا۔ فروری میں جاٹوں کے مرکز پر حملے کیے جس سے جاٹوں میں بددلی پھیلی گئی۔ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ جاٹوں کو مرہٹوں کے ساتھ ملنے سے روکے اور اپنی جانب الجھائے رکھے۔
یہ مقصد پورا ہوتے ہی اس نے مرہٹوں کے اس لشکر کی جانب کوچ کیا جو دہلی کے آس پاس دریائے جمنا کے پار منڈلا رہا تھا۔ احمد شاہ اسے دہلی پر قبضہ سے روکنا چاہتا تھا مگر مرہٹہ سردار ہولکر نے احمد شاہ کا سامنا نہ کیا۔ وہ کبھی ریگستانوں اور کبھی جنگل میں غائب ہو جاتا اور اچانک ابدالی فوج پر حملہ کر کے پھر روپوش ہوجاتا۔ یہ مارچ کا مہینہ تھا۔ ابدالی فوج نے ہولکر کے لشکر کا پڑاؤ معلوم کیا اور رات کی تاریکی میں حملہ کر کے مرہٹوں کے چھکے چھڑا دیے۔
ہولکر نے جم کر لڑنے کی بہت کوشش کی مگر اس زور دار لڑائی میں مرہٹوں کے کئی بڑے بڑے سردار اور سپاہی مارے گئے۔ ہولکر صرف تین سو آدمیوں کے ساتھ جان بچا کر بھاگ سکا۔ دہلی پر قبضے کا خیال ترک کر کے اب وہ آگرہ کی طرف دوڑ رہا تھا۔ دہلی کے گرد و نواح کو مرہٹوں سے پاک کر کے احمد شاہ ابدالی مغلوں کے اس پایہ تخت میں داخل ہوا۔ اس نے شہر کے نظم و نسق کو درست کیا اور قلعے سمیت تمام دفاعی انتظامات کے استحکام کا کام شروع کرایا۔ کچھ دنوں بعد ابدالی نے دو ہزار سپاہی دہلی کی حفاظت کے لئے چھوڑ کر 72 میل دور جمنا کے مشرقی کنارے پرانوپ شہر کو اپنی چھاؤنی بنالیا۔ اب اسے مرہٹوں کے ردعمل کا انتظار تھا۔
1760 کا تقریباً پورا سال احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کی جھڑپوں میں گزرا۔ مرہٹے کسی میدان میں اپنی پوری طاقت سامنے نہ لائے۔ دراصل یہ ان کا طریقہ جنگ تھا کہ چھوٹے چھوٹے گھڑسوار دستوں کے ساتھ دشمن پر متعدد اطراف سے حملہ کر کے اس کی طاقت کو منتشر کردی جائے۔ مغل کے بھاری بھرکم فوج کے خلاف یہ چال کامیاب رہی مگر افغان جانبازوں نے اس صورت حال کا بڑی ذہانت اور پامردی سے مقابلہ کیا اور تمام جھڑپوں اور معرکوں میں مرہٹے ہمیشہ شکست کھا کر پسپا ہوتے رہے۔
احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان میں نئے اتحادیوں کی تلاش جاری رکھی اور اپنی طاقت کو مقامی سرداروں اور نوابوں کی مدد سے بڑھانے میں کامیابی حاصل کی۔ روہیلہ سردار احمد خان بنگش سپہ سالار ابدالی کے پڑاؤ میں حاضری دی اور ہر طرح تعاون کا یقین دلایا۔ اس سال جولائی کے مہینے میں شاہ نے علی گڑھ میں قیام کے دوران اودھ کے نواب شجاع الدولہ کی حمایت بھی حاصل کرلی۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ نواب شجاع الدولہ ہندوستان کے طاقتور ترین امرا میں سے تھے۔ احمد شاہ بنگش نامور شجاع الدولہ نے دس ہزار سپاہی پیش کیے۔ کچھ دنوں بعد قندھار سے دس ہزار مزید تازہ دم سپاہیوں کی کمک آ گئی۔ اس طرح فوج کی تعداد 60 ہزار تک پہنچ گئی۔
مرہٹہ سردار یہ کامیابیوں دیکھ کر سخت پریشان تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پونا میں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہونے والی مرہٹوں کی اصل طاقت جلد از جلد ظاہر ہو اور احمد شاہ سے فیصلہ کن ٹکر لے۔
آخر کار ساڑھے تین لاکھ مرہٹوں کا سیلاب ”پونا“ سے نکل کر جون کو گوالیار پہنچا۔ جولائی کے وسط میں یہ لشکر آگرہ پہنچا جہاں مرہٹہ سالار راؤ ہولکر اور جاٹوں کا سردار سورج مل بھی اپنی فوجوں کے ساتھ ان سے آ ملے۔ یہ وہ دن تھے جب احمد شاہ ابدالی بلند شہر کے قریب انوپ شہر میں پڑاؤ ڈال کر اودھ کے نواب شجاع الدولہ سے مذاکرات کر رہا تھا۔ برسات کا موسم تھا، دریائے جمنا طغیانی پر تھا اور ابدالی فوج مرہٹہ فوجوں کو دہلی کی جانب پیش قدمی سے روکنے کے لیے دریا عبور نہیں کر سکتی تھیں۔
مرہٹہ لشکر آگرہ سے دہلی پر حملے کے لیے چلا۔ قدم قدم پر مسلمانوں کی بستیاں لوٹی جا رہی تھیں، دیہات اجڑ رہے تھے۔ ہزاروں مسلمانوں نے گھر بار چھوڑ کر جنگلوں میں پناہ لے لی تاکہ مرہٹوں کی غارت گری سے محفوظ رہیں۔
اس وقت ہندوستان کے مؤرخ کا قلم تھر رہا تھا کہ آئندہ صفحے پر شاید مسلمانوں کی مکمل تباہی کے سوا کچھ تحریر نہ ہو گا۔ یقیناً ایسا ہی ہوتا اگر اس وقت اللہ تعالیٰ کی تائید غیبی سے مسلمانوں کا محافظ احمد شاہ ابدالی میدان میں موجود نہ ہوتا۔
22 جولائی 1760 کو مرہٹوں نے مغلوں کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کر لیا، شاہی خزانے میں انہیں کوئی خاص دولت ہاتھ نہ لگی اس لیے کہ مغل حکومت کا دیوالیہ نکل چکا تھا۔ البتہ انہوں نے لال قلعہ دہلی کی سونے کی چھت اتروا کر اپنے لیے سونے کے سکے بنوائے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ دہلی کی شاہی مسجد کے منبر پر رام کی مورتی رکھیں گے، جس سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
بھاؤ کے ساتھ تین لاکھ افراد کا لشکر دہلی میں ایک ماہ کے قیام کے دوران خوراک و رسد کی کمی کا شکار ہو گیا۔ ستمبر کے اواخر میں بھاؤ نے فوج کو لے کر گنج پورہ پر چڑھائی کر کے مسلمانوں کا بے دردی سے قتل عام کیا اور خوراک و رسد سمیت سب کچھ لٹ لیا۔
احمد شاہ ابدالی نے دہلی پر مرہٹوں کے قبضے کی خبر بڑے تحمل کے ساتھ سنی، وہ جانتا تھا کہ مرہٹوں سے عنقریب کھلے میدان میں بدلہ لیا جائے گا۔ مگر گنج پورہ کے مرکز خوراک پر قبضہ اور مسلمانوں کی قتل عام اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ اس نے عہد کیا کہ مرہٹوں کو اس بری طرح کچلے گا کہ ان کی نسلیں یاد کریں گی۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ”میں نے زندگی بھر اپنی قوم کی ایسی تذلیل نہیں دیکھی، میں یہ برداشت نہیں کر سکتا۔“
اس نے دریا کی طغیانی کو نظر انداز کرتے ہوئے فوج کو پار کرنے کا حکم دیا۔ اس سے قبل شاہ نے دو روز تک روزہ رکھا اور اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت کی دعائیں کرتا رہا۔ 25 اکتوبر کو افغان جانباز دریائے جمنا کے ٹھاٹھیں مارتے پانی میں اترے مگر پانی انہیں آگے بڑھنے سے روک رہی تھی۔ احمد شاہ ابدالی نے ایک تیر لیا، قرآن مجید کی چند آیات تلاوت کر کے اس پر دم کیں اور تیر دریا کے بپھرے ہوئے سینے میں پیوست کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دریا کا جوش تھمنے لگا، مجاہدین کی مسرت کا عالم دیدنی تھا، وہ تکبیر کے نعرے بلند کر کے ترتیب کے ساتھ گھوڑے جمنا کے لہروں میں ڈالتے گئے۔ ابدالی خود بھی موجوں میں اتر گیا۔ دوسری طرف مرہٹے یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ مجاہدین اسلام پر تیر برسانا شروع کر دیا۔ دو ہزار مسلمان ڈوب گئے اور 58 ہزار جانبازوں سمیت شام سے پہلے پہلے ابدالی دریا کے پار اتر چکا تھا۔
سدا شیو بھاؤ دہلی واپس آ کر فتح کا جشن منا رہا تھا، کہ اچانک احمد شاہ ابدالی کے دریا عبور کرنے کی اطلاع ملی۔ ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے فوری طور پر دہلی سے کوچ کیا اور پانی پت کی طرف ہٹنے لگا کیونکہ اس کے لاکھوں سپاہیوں کی صف بندی پانی پت کے وسیع میدان کے سوا کہیں نہیں ہو سکتی تھی۔
بھاؤ 29 اکتوبر 1760 کو اپنے لشکر کے ساتھ پانی پت کے میدان میں پہنچا۔ احمد شاہ ابدالی دریائے جمنا عبور کر کے تقریباً 16 میل کا فیصلہ طے کر کے بھاؤ کے لشکر کے بالمقابل آ گیا۔
یہ پانی پت کا وہ تاریخی میدان تھا جہاں 1526 میں بابر اور ابراہیم لودھی کے معرکے نے ہندوستان کی تاریخ بدل دی تھی۔ پانی پت کا یہ میدان ایک بار پھر تاریخ ہند کا ایک نیا باب دیکھنے والا تھا۔ ایک طرف ہندوستان کی تمام باطل قوتیں اب یہاں جمع تھیں تو دوسری طرف اس سیلاب کے مقابلے میں مٹھی بھر مسلمان جانباز تھیں۔ پانی پت کے میدان میں دونوں فریق تقریباً پانچ میل کا فاصلہ رکھ کر پڑاؤ ہوئے تھے۔ دو ماہ تک (نومبر، دسمبر) دونوں فوجوں میں کئی چھوٹے بڑے جھڑپیں ہوئیں۔ مرہٹے فوج خوراک و رسد کی کمی اور تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے بغاوت پر اترنے والی تھی کہ بھاؤ نے ابدالی کو صلح کی پیشکش کی اور پس پردہ جنگ کے لئے اپنے لشکر کو تیار کر دیا۔
نواب شجاع الدولہ مان گیا، مگر دہلی کے نواب نجیب الدولہ نے اس سے انکار کیا اور کہا: ”مرہٹے دہلی کے لال قلعے پر قبضہ کر چکے ہیں، گنج پورہ کے 20 ہزار افغانوں کے خوں میں ہاتھ رنگ چکے ہیں، آج اگر ہم نے صلح کرلی تو کل کو بادشاہ سلامت کی افغان واپسی کے بعد یہ تازہ دم افواج کے ساتھ مسلمانوں پر یلغار کر دیں گے اور ہندوستان کے مسلمانوں کو ختم کر ڈالیں گے۔“
یہ اہم مشاورت پانی پت کے میدان میں 13 اور 14 جنوری کی درمیانی شب ہو رہی تھی نجیب الدولہ کی حقیقت کشاہ تقریر نے سب کی آنکھیں کھول دیں۔ احمد شاہ ابدالی کو بھی اطمینان ہو گیا کہ فیصلہ میدان جنگ میں تلوار کی دھار ہی سے ہو گا، تاہم انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ بھاؤ کا پیغام صلح بد نیتی پر مبنی ہے۔
صبح ہوئی تو حالات بدل تھے۔ بھاؤ کے لشکری پیش قدمی کر رہے تھے۔ احمد شاہ تیزی سے اپنے خیمے سے باہر نکلا، بدلتے حالات کا جائزہ لیا اور فوری طور پر فوج کو فوراً تیار ہونے کا حکم دیا۔ افغان سپاہی جو بے خبر سو رہے تھے یک دم بیدار ہوئے اور حیرت انگیز طور پر چند لمحوں میں صف آرا ہوئے۔
احمد شاہ ابدالی کے افغان لشکر کی تعداد 26 ہزار گھڑ سواروں پر مشتمل تھی۔ ان کے ساتھ مسلمان امرا (روہیلہ، نجیب الدولہ، دوآب کے افغان اور اودھ کے نواب شجاع الدولہ) کے 40 ہزار پیادہ اور گھڑ سوار سپاہی تھے۔ شاہ نے 66 ہزار سپاہیوں کی صف بندی کی۔ مقابلے میں مرہٹوں کے لشکر کی تعداد 3 لاکھ سے اوپر تھی۔ ایک مؤرخ لکھتے ہیں کہ مرہٹہ فوج کی تعداد 5 لاکھ تھی۔
14 جنوری 1761 کی صبح کو پانی پت کے میدان میں دونوں فوجوں میں گھمسان کا رن پڑا۔ یہ جنگ طلوع آفتاب سے شروع ہوئی جبکہ ظہر کے وقت تک ختم ہو گئی۔ روہیلہ سپاہیوں نے بہادری کی داستان رقم کی۔ ابدالی فوج کے سپاہیوں کا رعب مرہٹوں پر چھایا رہا۔ آخر کار زبردست لڑائی کے بعد سہ پہر کو مسلمانوں نے تین لاکھ مرہٹوں کے سیلاب کو کچل کر فتح حاصل کی۔
اس تاریخی جنگ میں 20 ہزار کے قریب مسلمان جانباز شہید اور ایک لاکھ سے زیادہ مرہٹے مارے گئے۔ 22 ہزار مرہٹے پکڑ کر قیدی بنا لئے گئے۔ پچاس ہزار کے قریب بھاگنے اور بستیوں میں چھپنے کے دوران مارے گئے۔ بمشکل ایک لاکھ سے کم سپاہی بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔
مرہٹوں سے نفرت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب مرہٹے شکست کھا کر بھاگے تو ان کا پیچھا کر کے انہیں مارنے والوں میں مقامی افراد کے ساتھ ساتھ عورتیں، بچے اور دیہات کے ہندو بھی شامل تھیں، جو قبل ازاں بے دردی سے مارے اور لوٹے گئے تھے۔
اس جنگ میں مرہٹوں نے عبرت ناک شکست کھائی۔ اس کے بعد وہ دوبارہ کبھی جنگی میدان میں فتح حاصل نہ کرسکے۔ مسلمانوں نے اس جنگ میں ہزاروں ہاتھی اور اونٹ، لاکھوں گھوڑے، لاکھوں نقد روپے اور لاکھوں مویشیاں حاصل کیے۔
اس شاندار فتح کے بعد احمد شاہ ابدالی نے دہلی پہنچ کر اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کر کے شہزادہ علی گوہر کو دہلی کے تخت پر بٹھایا۔ مغل سلطنت ہی کو ہندوستان کے مسلمانوں کی سطوت و شوکت کا وارث قرار دیا اور خود کوئی سیاسی فائدہ حاصل کرنے سے گریز کیا۔ شاہ نے تمام ہندوستانی امرا اور سرداروں کو ہدایت کی کہ مغل سلطنت کے وارث شاہ عالم ثانی کو ہندوستان کا فرمانروا تسلیم کریں۔ سلطنت دہلی کے اس انتظام کے بعد احمد شاہ ابدالی دو ماہ بعد 20 مارچ 1761 کو دہلی سے واپس افغانستان روانہ ہو گیا۔
نتائج: ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کا نام، شان و شوکت، عزت اور وقار بلند ہو گیا۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی وجود باقی رہ گئی۔مرہٹوں کا خاتمہ ہو گیا۔
ہندوستان پر ان کی حکومت کی خواہش اور شاہی مسجد دہلی کے منبر پر رام کی مورتی لگانے کا خواب بکھر گیا۔
مرہٹوں کے تقریباً سارے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔
مرہٹے پھر کبھی اٹھنے کے قابل نہیں ہوئے۔