ڈاکثر رحمت عزیز خان چترالی
زہرا نگاہ کی نظم “سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے” ایک عمدہ اور معنی خیز شاعرانہ تخلیق ہے جس میں شاعرہ نے انسانی معاشرت کے تلخ حقائق کو جنگل کے مثالی قوانین کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نظم میں موجودہ حالات کے تناظر میں ایک گہرا پیغام دیا گیا ہے، خاص طور پر جب ہم اخلاقی زوال، ناانصافی، اور انسانی رشتوں میں موجود بے حسی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
زہرہ نگاہ نے نظم کی ابتدا جنگل کے قوانین کے ذکر سے کیا ہے، جہاں جانوروں کی فطری اخلاقیات، ہمدردی اور بقا کے اصول انسانوں کے سماجی رویوں سے زیادہ مہذب نظر آتے ہیں۔ شاعرہ نے اس تضاد کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ جب جانور بھی فطری اصولوں کی پاسداری کر سکتے ہیں تو انسان جو عقل و شعور کا حامل اور اشرف المخلوقات ہے، کیوں ان اقدار سے بے بہرہ ہو گیا ہے۔
نظم میں معاشرتی زوال اور بے حسی کا جابجا اظہار ملتا ہے۔ نظم میں انسانوں کی بے حسی کو جنگل کے اصولوں کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے۔ آج کے معاشرے میں انسانی رشتے مادیت پرستی اور خودغرضی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ شاعرہ کا یہ کہنا کہ جنگل میں جانور بھی ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسانیت کا معیار گر چکا ہے۔
نظم میں انصاف اور مساوات کی کمی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ نظم میں شیر کا ذکر ایک طاقتور اور منصفانہ کردار کے طور پر کیا گیا ہے جو پیٹ بھرنے کے بعد کسی جانور پر حملہ نہیں کرتا۔ اس کے برعکس موجودہ انسانی معاشرے میں طاقتور طبقہ کمزوروں کا استحصال کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ یہ نظم ایک سوالیہ نشان ہے کہ کیا جنگل کے جانور بھی انسانوں سے زیادہ انصاف پسند ہیں؟
نظم میں ماحولیاتی شعور کی بات کی گئی ہے۔ نظم میں درختوں، ندی، اور مچھلیوں کا ذکر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ قدرت کے عناصر بھی ایک دوسرے کے وجود کا احترام کرتے ہیں۔ آج کل کے ماحولیاتی بحران اور انسانی لاپرواہی کے تناظر میں یہ نظم ہمیں زمین کے وسائل کی حفاظت کا سبق دیتی ہے۔
نظم میں انسانی اتحاد کی کمی کا زکر کیا گیا ہے۔ نظم میں طوفان کے وقت مختلف جانوروں کے اتحاد کا ذکر ایک اہم سبق ہے۔ موجودہ حالات میں انسانی معاشرت میں اتحاد و اتفاق کی کمی نمایاں ہے، جہاں بحران کے وقت لوگ دوسروں کا سہارا بننے کی بجائے خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
شاعرہ کی اپیل بھی نظم میں موجود ہے۔ نظم کے اختتام پر شاعرہ ایک دعا کی صورت میں اپنے خیالات کا نچوڑ پیش کرتی ہیں۔ وہ خدا سے یہ التجا کرتی ہیں کہ اس معاشرے میں جنگلوں کے قوانین نافذ کر دیے جائیں، کیونکہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ یہ دعا نہ صرف انسانیت کے زوال کا ماتم ہے بلکہ شاعرہ کی طرف سے ایک امید بھی ہے کہ شاید فطرت کے اصول انسانوں کو ان کی گم شدہ اخلاقیات یاد دلانے میں مدد دیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ زہرا نگاہ کی یہ نظم موجودہ سماجی اور اخلاقی بحران کا ایک آئینہ ہے۔ شاعرہ کا پیغام نہایت سادہ مگر اثر انگیز ہے: اگر انسان اپنے رویے کو فطرت کی فطری اصولوں کے مطابق ڈھال لے تو وہ اپنی کھوئی ہوئی انسانیت کو دوبارہ پا سکتا ہے۔ شاعرہ کی خواہش ہے کہ ملک میں بھی “جنگلوں کا قانون” نافذ ہو جائے، یہ نظم انسانیت کے لیے ایک سبق اور انتباہ ہے کہ اگر ہم نے اپنے رویے درست نہ کیے تو فطرت کے اصول ہم پر مسلط ہو سکتے ہیں۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے زہرہ نگاہ کی نظم پیش خدمت ہے۔
*
“سنا ہے” (نظم)
*
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندا! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر!
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔