عادل سلطان خاکی کا پوٹھوہاری افسانہ رویہ،خاندانی تعلقات کی کہانی

عادل سلطان خاکی کا پوٹھوہاری افسانہ رویہ،خاندانی تعلقات کی کہانی

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
rachitrali@gmail.com

عادل سلطان خاکی کا پوٹھوہاری افسانہ “رویہ” زندگی کے ان گہرے اور پیچیدہ مسائل پر مبنی بہترین کہانی ہے جس میں مصنف نے خاندانی اور ازدواجی تعلقات کے سرد و گرم رویوں کو بیان کیا ہے۔ مادری زبان کا یہ افسانہ معاشرتی تضادات، جذباتی لاتعلقی، اور انسانی زندگی میں محبت اور تفہیم کی کمی کا عکس پیش کرتا ہے۔

پوٹھوہاری افسانہ “رویہ” کے مرکزی کردار نادر اور اس کی بیوی کے درمیان مکالمہ سرد رویوں اور زندگی کی تلخیوں کا عکاس ہے۔ افسانے میں نادر کے اندرونی جذبات اور اس کی بے بسی کو پیش کیا گیا ہے، جو زندگی کے مسائل اور رشتوں کی کشیدگی کا شکار ہے۔ عورت کی جانب سے محبت اور ہمدردی کا اظہار، مگر ساتھ ہی ایک قسم کی بے بسی اور حالات کے جبر کو قبول کرنے کا عنصر، افسانے کو مزید گہرائی دیتا ہے۔

نادر اور اس کی بیوی دونوں کردار علامتی نوعیت کے ہیں۔ نادر، جو رشتوں کی کشمکش میں الجھا ہوا ہے، معاشرتی اور خاندانی نظام کی ناانصافیوں کا مظہر ہے۔ عورت کا کردار محبت، قربانی، اور برداشت کی علامت ہے۔ وہ نادر کی تلخ باتوں کے باوجود اسے تسلی دینے کی کوشش کرتی ہے، مگر اس کا دل اندر سے ٹوٹا ہوا ہے۔

افسانے میں سردی اور کمبل جیسے عناصر علامتی طور پر استعمال کیے گئے ہیں۔ سردی انسانی تعلقات کی سرد مہری اور محبت کی کمی کو ظاہر کرتی ہے، جبکہ کمبل قربت اور تحفظ کی علامت ہے، جو یہاں موجود نہیں۔

افسانے کا بیانیہ داخلی جذبات پر مبنی ہے، جو قاری کو کرداروں کے اندرونی جذبات کے قریب لے جاتا ہے۔ مکالموں کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے، جو اس کی فطری روانی کو برقرار رکھتا ہے۔
عادل سلطان خاکی کا اسلوب سادہ مگر گہرائی سے بھرپور ہے۔ ان کے جملے جذبات کو براہ راست اور موثر انداز میں بیان کرتے ہیں۔

اس افسانے میں مصنف موجودہ سماجی رویوں پر کڑی تنقید کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ مصنف نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح خاندانوں میں محبت اور ہمدردی کی کمی انسانی رشتوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ نادر کا کہنا کہ “یہ میری غلطی ہے کہ میں دونوں فریقوں کو شور ختم کرنے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہوں”، معاشرتی دباؤ اور رشتوں کی کشیدگی کا عکاس ہے۔

افسانہ رویہ میں مصنف ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ رشتوں میں محبت، تفہیم، اور ہمدردی کی ضرورت ہے۔ اگر یہ عناصر موجود نہ ہوں تو زندگی سرد اور بے روح بن جاتی ہے۔ نادر اور اس کی بیوی کے درمیان کشیدگی اس بات کا ثبوت ہے کہ رشتوں میں جذباتی فاصلے کتنے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ عادل سلطان خاکی کا یہ افسانہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے قریبی رشتوں میں کس حد تک محبت اور ہمدردی کو جگہ دے رہے ہیں۔ اس میں پیش کی گئی سرد مہری اور جذباتی تلخی معاشرتی حقائق کا آئینہ ہے۔ افسانہ رویہ ایک کامیاب تخلیق ہے جو اپنے موضوع اور اسلوب کے ذریعے قاری کو متاثر کرے گا اور قاری کے دل میں ایک گہری اثر چھوڑے گا۔ میں مصنف کو اتنی اچھی کہانی تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں