اشک خنداں اور طنز و مزاح کا شہزادہ عبد الرحمن

اشک خنداں اور طنز و مزاح کا شہزادہ عبد الرحمن

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

“اشک خنداں” کے مصنف عبد الرحمن عبد سے میری ملاقات اکادمی ادبیات پاکستان کے رائٹرز ہاؤس میں مہکان ادبی ایوارڈز کی تقریب میں ہوئی تھی اس ایوارڈ تقریب کا انعقاد ڈاکٹر مشتاق عادل نے کیا تھا اس میں عبدالرحمن عبد کے ساتھ ساتھ مجھے بھی میری دو کتابوں کے لیے ایوارڈز دئیے گئے۔ تقریب سے فراغت کے بعد عبدالرحمن عبد اپنی کتاب اشک خاندان مجھے دی۔ اور اس اپنی رائے دینے کو کہا۔ ان کی تحریر کردہ یہ کتاب ایک منفرد مزاحیہ و طنزیہ کتاب ہے جس میں زندگی کے عام پہلوؤں کو دلچسپ اور طنزیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے کتاب اپنی والدہ مرحومہ کے نام منسوب کیا ہے جس سے ان کی والدہ کے لیے محبت اور عقیدت ظاہر ہوتی ہے۔ کتاب کا دیباچہ خود مصنف نے لکھا ہے اور محمد حمید شاہد اور ابرار شاکر تمغہ امتیاز نے اس پر فلیپ تحریر کیے ہیں۔ یہ کتاب قاری کو نہ صرف ہنسنے ہنسانے پر مجبور کرتی ہے بلکہ زندگی کے اہم پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کی دعوت بھی دیتی ہے۔ محمد حمید شاہد کتاب کے فلیپ میں رقمطراز ہیں “میری عبد سے ملاقات نہیں تھی۔ کچھ ماہ پہلے انہوں نے اپنا شعری مجموعہ ” لہر در لہر” میری بیگم کے بھتیجے ذیشان طارق کے ہاتھ مجھ تک پہنچایا تو میں نے پڑھا تھا۔ اپنی شعری روایت سے پورے اخلاص کے ساتھ جڑا ہوا اور اپنے تہذیبی مظاہر پر پورا پورا ایقان رکھنے والا شخص جس طرح کے شعری وسائل برت سکتا ہے وہ انہوں نے بہت قرینے سے برت لیے تھے۔۔ میں نے اشک خنداں کھول کر اس کے پہلے دیباچے کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے فکر تونسوی کا قلم نشتر ہوتا نظر آیا تھا۔۔۔ فکر تونسوی نے جس آدھے آدمی کی بات کی، اُس کا آدھا وجود بے حس تھا جب کہ عبد کا وجود ہی آدھا ہے اور یہ میرے بدن میں سنسنی دوڑانے کے لیے کافی تھا کہ وہ جب سفاکی سے اپنے قلم کا نشتر اپنے ہی آدھے وجود پر چلا رہے تھے۔۔۔ یہ تیکھے مضامین کا مجموعہ اشک خنداں انہی عبد صاحب کا ہے۔ دعا گو ہوں کہ اللہ ان کے قلم کی تاثیر میں اور اضافہ کرے”۔
“اشک خنداں” میں مصنف نے زندگی کے عام مسائل، خاندانی تعلقات، اور سماجی رویوں کو مزاحیہ انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے اپنی شخصیت، جسمانی کمزوریوں، اور معاشرتی مسائل کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کیا ہے۔ کتاب میں موجود ہر مضمون قاری کو ہنسانے کے ساتھ ساتھ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔ ابرار شاکر تمغۂ امتیاز لکھتے ہیں۔ “عبد الرحمن عبد صاحب نے مزاح کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ اس کے تعمیری پن اور معاشرتی اصلاح کے آلے کے طور پر اس کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اس میدان میں طبع آزمائی کی ہے۔ مقامی رہن سہن، تمدن، طرز معاشرت ان کا موضوع سخن ہیں۔ آپ نے روز مرہ زندگی کے ہلکے پھلکے پہلوؤں کو مزاح کے رنگ میں رنگا ہے۔ ان کے کردار ان کے ذاتی تعلقات کی بنا پر ان کے اردگرد اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے والے حقیقی کردار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں رنگ مزاح اجاگر کرنے کے لیے مبالغہ آمیزی یا غلو سے کام نہیں لینا پڑا۔ ان کے مزاح میں برجستگی اور فطری پن ہے۔ تصنع کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اسلوب بیان سادہ شستہ اور سلیس ہے۔ کتاب میں مقامیت کا عنصر نمایاں ہے۔ مقامی بولی کی آمیزش نے مضحک پہلوؤں کو عجب دلکشی دی ہے۔ گھیمی زبان کو اتنی بے ساختگی اور برجستگی سے استعمال کیا گیا ہے کہ عبارت کا لطف دو چند ہو جاتا ہے۔ موضوعات کی عمومیت سے ہر خاص و عام لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ یہی بات اس کتاب کو انفرادی شان بخشتی ہے۔ موضوعات کرداروں اور ان کی زبان اور طنز میں دقیق فلسفیانہ الفاظ، اشاریت، ایمائیت یا علامت و اختصاص بالکل نہیں ہے۔ سادہ اور مختصر الفاظ سے مزاح کے لطیف پہلو نکالے ہیں”۔
کتاب کا بنیادی موضوع زندگی کے عام پہلوؤں کو مزاحیہ انداز میں بیان کرنا ہے۔ عبد الرحمن عبد نے معاشرتی رویوں، خاندانی تعلقات، اور اپنی ذات کے تجربات کو بنیاد بنا کر ایک ایسا تخلیقی انداز اپنایا ہے جو قاری کو اپنے ارد گرد کے حالات پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ کتاب کے دیباچہ میں مصنف “میں” کے عنوان سے لکھتے ہیں۔ “”میں عبد الرحمن ہوں۔ میں عجیب و امیر اظہار شان یزدان ہوں۔ میں گلیوں میں کھیلتے آوارہ بچوں کے لیے تضحیک کا سامان ہوں۔ میں خود کو دیکھ کر نہ پریشان ہوں نہ پشیمان ہوں۔ ہاں! حیران ہوں۔ جنہوں نے مجھے نہیں دیکھا وہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کیا انسان ہوں۔ اللہ جانے میں ہوں یا صرف مبتلائے گمان ہوں۔
اگر میرا قد صرف چارفٹ اور اونچا ہوتا تو میں آٹھ فٹ کا دراز قد انسان ہوتا۔ اگر میرے جسم کا کوئی ایک جوڑ بھی سیدھا ہوتا اور طبع میں ذراسی بھی سادگی ہوتی تو میں سیدھا سادہ انسان ہوتا۔ دست قدرت نے مجھے مرد بنا کر میری آواز میں ایسی نسوانیت رکھی ہے کہ اگر مجھے بچپن سے ہی جوڑوں کی بیماری کے ساتھ ساتھ دیانت داری، ایمانداری اور صداقت وغیرہ جیسی جان لیوا بیماریاں لاحق نہ ہو جاتیں تو میں غلطی سے اپنا نمبر ملانے والے ان سینکڑوں ” عقلمندوں ” سے اور نہیں تو ہزاروں کا بیلنس تو منگوا سکتا تھا نہیں لاکھوں بار بتا چکا ہوں کہ میں لڑکی نہیں ہوں لیکن وہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ ساغر صدیقی نے کہا تھا:
“زندگی جبر مسلسل کی طرح کائی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں”
کتاب کی ساخت مربوط اور منظم ہے۔ ہر مضمون ایک الگ کہانی یا واقعے پر مبنی ہے، جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ مصنف کا اسلوب سادہ، شگفتہ اور برجستہ ہے، جو قاری کو کہانی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔ مقامی بولیوں اور زبان کا استعمال کتاب کے مزاح کو مزید دلچسپ بناتا ہے۔ مصنف لکھتے ہیں۔ “اگر آپ اپنے دکھوں پر رو رو کر تنگ آچکے ہیں اور مسکرانا چاہتے ہیں تو اشک خنداں پر ایک نگاہ ضرور ڈالیے اور اگر آپ اپنے دکھوں پر آنسو بہانا چاہتے ہیں تو اشک خنداں“ کے قہقہوں میں پنہاں سسکیاں ضرور سنیے”۔
مصنف نے طنز، مزاح، استعارے، اور تشبیہات کا خوبصورت استعمال کیا ہے۔ ان کے کردار حقیقی زندگی سے قریب تر ہیں، اور ان کے مکالمے فطری اور برجستہ ہیں۔ مقامی زبان کے الفاظ اور محاوروں کا استعمال کتاب کو منفرد اور دلکش بناتا ہے۔
دیباچے میں مصنف نے اپنی ذات، شخصیت، اور زندگی کے تجربات کو مزاحیہ انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کی خود تنقیدی اور طنزیہ تحریر قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
محمد حمید شاہد کے مطابق: عبد الرحمن عبد کا مزاح فکر تونسوی کے قلم کی یاد دلاتا ہے۔ وہ مصنف کے قلم کو نشتر سے تشبیہ دیتے ہیں، جو نہایت باریکی سے انسانی رویوں پر طنز کرتا ہے۔
ابرار شاکر نے کتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصنف نے مزاح کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اس کے ذریعے معاشرتی اصلاح کا پیغام دیا ہے۔ ان کے مطابق: کتاب کی زبان سادہ اور فطری ہے، اور مقامی بولی کے استعمال نے اس کے مزاح کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔
کتاب کے کردار حقیقی زندگی سے ماخوذ ہیں جو قاری کو اپنے ارد گرد کے لوگوں کی یاد دلاتے ہیں۔ مصنف نے ان کرداروں کے ذریعے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نہایت خوبصورتی سے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
کتاب کی زبان سادہ، شستہ، اور فطری ہے۔ مقامی بولیوں کا استعمال قاری کو کہانی کے ماحول میں لے جاتا ہے اور مزاح کو مزید گہرا اور مؤثر بناتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ “اشک خنداں” ایک منفرد اور دلچسپ کتاب ہے جو قاری کو ہنسنے کے ساتھ ساتھ زندگی کے گہرے پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ عبد الرحمن عبد کا اسلوب اور مزاح اردو ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے موزوں ہے جو ہلکے پھلکے انداز میں زندگی کے مسائل کو سمجھنا چاہتا ہے۔ میں مصنف کو اتنی اچھی کتاب تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں