ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
علی تنہا نوجوان نعت گو شاعر ہیں اردو اور پنجابی میں شاعری کرتے ہیں، آپ حمد، نعت اور غزل کے شاعر ہیں۔ نعت گوئی اردو ادب کی وہ صنف ہے جو عشقِ رسولؐ کے اظہار اور دینی و روحانی جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ علی تنہا کی زیر تبصرہ نعت نہایت سادگی اور گہرائی کے ساتھ عشقِ مصطفیٰؐ کا بہترین نمونہ ہے۔ اس نعت میں شاعر نے حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے محبت کو ایمان کی بنیاد اور عبادات کی قبولیت کی شرط قرار دیا ہے، اور اپنی جذباتی کیفیت کو انتہائی موثر انداز میں پیش کیا ہے۔
آپ کی نعت مین محبت رسول ﷺ کا اظہار جابجا ملتا ہے۔ آپ کی نعت کا پہلا شعر بنیادی طور پر محبتِ رسول ﷺ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے مثلاً:
“محمدؐ سے جس کو محبت نہیں ہے
تو مقبول اس کی عبادت نہیں ہے”
علی تنہا کا یہ شعر قرآنی تعلیمات اور احادیثِ مبارکہ کی تفسیر محسوس ہوتا ہے، جہاں محبتِ رسول ﷺ کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر نہایت سادگی اور تاثیر کے ساتھ یہ پیغام دیتا ہے کہ محبتِ رسول ﷺ کے بغیر عبادات بے معنی ہیں۔
آپ کی شاعری میں مدینہ کی زیارت کی خواہش بھی ہے جیسے:
“خدا جو دکھائے مدینہ مجھے تو
کہیں اور جانے کی حاجت نہیں ہے”
اس شعر میں شاعر مدینہ منورہ کی زیارت کی روحانی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ شاعر نے انتہائی خوبصورتی سے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے کہ مدینہ دیکھنے کے بعد دنیا کی کسی اور جگہ جانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہث کیفیت ایک عاشقِ رسول ﷺ کے دل کی عکاسی ہے۔
یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
“یہ مانا کہ یوسفؑ حسیں تر تھے لیکن
مرِے مصطفیٰؐ جیسی صورت نہیں ہے”
اس شعر میں شاعر نے حضرت یوسفؑ کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے حضور نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے حسن کو بے نظیر قرار دیا ہے۔ یہ شعر اسلامی عقائد اور شاعرانہ فنکاری کا حسین امتزاج ہے، جس میں نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی جمالیاتی برتری کو بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
آپ کی شاعری میں مدحِ رسولؐ کی دولت کا بھی ذکر کیا گیا ہے مثلاً:
“وہ مفلس ہے دنیا میں جس کو میسر
ثنائے محمدؐ کی دولت نہیں ہے”
علی تنہا کا یہ شعر واضح کرتا ہے کہ دنیا کی اصل دولت حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ثنا و صفت ہے۔ شاعر نے انتہائی اختصار میں وہ حقیقت بیان کی ہے جو صوفیا اور علمائے کرام کے کلام کا مرکزی نکتہ رہی ہے۔
شاعر نے عقیدت کی ضرورت پر بھی بات کی ہے جیسے:
“نہیں کچھ بھی تنہا طوافِ حرم میں
اگر دل میں اُنؐ کی عقیدت نہیں ہے”
علی تنہا نے اپنے اس شعر میں عبادات کے ظاہری اعمال کو دل کی عقیدت سے مشروط کر دیا ہے۔ شاعر کا یہ بیان تصوف کی تعلیمات سے ہم آہنگ نظر آتا ہے، جہاں عبادت کو دل کی پاکیزگی اور عشقِ رسول ﷺ سے جوڑا گیا ہے۔
علی تنہا کی یہ نعت سادہ، پراثر اور رواں زبان میں لکھی گئی ہے۔ ہر شعر میں خیالات کی گہرائی اور جذبات کی شدت نمایاں ہے۔ شاعر نے تشبیہات اور استعارات کا سہارا لیے بغیر، براہِ راست اور دلکش انداز میں عشقِ رسول ﷺ کو بیان کیا ہے، جو اس نعت کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔
علی تنہا کی یہ نعت ایک عاشقِ رسول ﷺ کے جذبات اور عقیدت کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ یہ کلام محبتِ رسول ﷺ، ایمان کی گہرائی، اور روحانی خواہشات کا ایسا آئینہ ہے جو قارئین کے دل میں عشقِ رسول کی شمع روشن کرتا ہے۔ یہ نعت اردو نعتیہ شاعری کے خزانے میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ میں شاعر کو اتنی اچھی نعت لکھنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔