غلطیوں کے نتائج بھگتنا ہی پڑیں گے

غلطیوں کے نتائج بھگتنا ہی پڑیں گے

اس ملک میںنومئی کو جو کچھ بھی ہوا ،نہیں ہو نا چاہئے تھا ، لیکن اس کے بعد جو کچھ ہورہا ہے ،وہ بھی نہیں ہو نا چاہئے ، اس پر ایک طرف سیاست چمکائی جارہی ہے تو دوسری جانب ملوث عام افراد کو فوجی عدالتوں میں سزا دی جارہی ہے ،اس سے متعلق قرار دا پارلیمان نے ہی منظور کی تھی اور وفاقی حکومت نے ان افراد کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں بھیجنے کی منظوری دی تھی ، اس کے بعد ہی فوجی عدالتوں میں مقدمات چلے اور ملوث افراد کو سزا ئیں سنائی گئی ہیں،اس پر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے جہاں فوجی عدالت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے، وہیں فوجی عدالتوں کی جانب سے عام شہریوں کو سزا سنائے جانے پر یورپی یونین کے بعد امریکا اور برطانیہ نے بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ سیاسی کارکنوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانا کسی طور درست نہیں ہے، پاکستان ایک آزاد و خودمختار ریاست ہے ،اس کا ایک آئین اور قانون ہے، آئین کے تحت فوجی عدالتوں کا دائرہ کار عام طور پر مسلح افواج کے اہلکاروں یا مخصوص حالات میں دہشت گردی کے مقدمات تک محدود ہے، آئین ہر شہری کو شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے، ملٹری کورٹس کبھی بھی عوامی سماعت کے اصولوں پر پورا نہیں اترتیں، آئین کے تحت فوج کو امن وامان کے قیام کے لیے سویلین حکومتیں طلب کرسکتی ہیں اور دہشت گردی کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں بھیجے جا سکتے ہیں، تاہم عام شہریوں کے مقدمات عام عدالتوں ہی میں چلنے چاہئیں، مگر اس بار آئین کی حقیقی پاسداری نہیں کی گئی ہے اور ایک پارٹی کے سیاسی کار کنان کو دہشت گرد قرار دیے کر فوجی عدالتوں سے سزائیں سنائی گئی ہیں ۔
اس فیصلے پر حکو مت جہاں خو شی کا اظہار کررہی ہے وہیں اپوزیشن کے ساتھ کچھ حلقے بھی اسے انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دے رہے ہیں، اس پروزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ نومئی کے کارندوں اور مہروں کے بعد ماسٹر مائنڈ کو بھی سزا ملے گی، اگر بانی پی ٹی آئی کو سزا ہوئی بھی تو قطعی نو مئی جیسے حالات پیدا نہیں ہوں گے،لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ جب تک آئین اور قانون کی بالادستی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، اس نوع کے ہی واقعات ہوتے رہے ہیںاور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے، یہ کیس عدلیہ نے فوجی عدالتوں میں بھیج کر خود اپنی کارکردگی پر ہی سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے ،وہ خود کس مرض کی دوا ہیں؟ حکومت بھی پیچھے نہیں رہی ہے ،اس نے بھی نومئی کے واقعات کے ذمے داروں کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے لیے پارلیمان سے قرارداد منظور کروا کے غیر جمہوری طرزعمل کا مظاہرہ کیا، سیاسی انتقام پر مبنی ایسی کسی قرارداد کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے، سیاسی اختلاف کا مطلب قطعی طور پر نہیں ہونا چاہیے کہ مخالفین کو سپردِ صلیب کردیا جائے،انہیں دیوار سے لگایا جائے ،راستے سے ہٹایا جائیاور اس کیلئے ہر جائز و ناجائز طر یقہ آزمایا جائے ، اس سے حالات سلجھنے کی بجائے مزید الجھتے جائیں گے۔
اگر دیکھا جائے تواس نوع کے سانحات سے پاکستان کی پوری تاریخ بھری پڑی ہے، لیکن نومئی کا سانحہ ایک بڑا سانحہ ہے ، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، مگر مملکتِ خداداد میںنومئی کے سانحے سے بھی بڑے سانحات رونما ہوئے ہیں، لیکن اس طرح سے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلے نہ ہی سزائیں دلوائی جاتی رہی ہیں،اس بار فوجی عدالتوں سے ایک ایسا فیصلہ سنایا گیا ہے کہ جس سے سیاسی کارکنوں میں عدم تحفظ کا احساس، خوف اور عدلیہ پر عوامی اعتباد بری طرح مجروح ہورہاہے، اس فیصلے سے عالمی برادری بھی متشوش کی لہر اُٹھنے لگی ہے، اس طرح کے فیصلہ کسی طور شہری حقوق، قانون کی حکمرانی، جمہوری اقدار اور آئین کی بالا دستی سے ہم آہنگ نہیں ہے، اس کے سیاسی اور عدالتی سطح منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اس طرح کے فیصلوں سے جمہوری روایات مضبوط ہونے کے بجائے سیاسی عمل میں غیر جمہوری قوتوں کا عمل دخل مزید بڑھ سکتا ہے۔
اہل سیاست میں پہلے بھی تفریق رہی ہے اور اب بھی شدت سے تفریق پائی جاتی ہے ، اس کا دوسری قوتیں بھر پور فائدہ اُٹھا رہی ہیں ، اہل سیاست ایک دوسرے کی مخالفت جو کچھ کررہے ہیں اور جو کچھ بورہے ہیں ، اس بوئے کو خود ہی کا ٹنا پڑے گا ، اس کے ساتھ سویلین عدالت کے بجائے ملٹری کورٹ میں مقدمات کے فیصلے پر اُٹھتے سوالات کا جواب بھی دینا ہی پڑے گا، کیو نکہ اس عمل میں اہل سیاست برابر کے شر یک کار رہے ہیں ، اگر کسی نے بھی جرم کیا ہے تو اسے آئین و قانون کے مطابق ہی ضرور سزاملنی چاہیے، فوجی عدالتوں میں مقدمات چلاکر سزائیں سنانے کے علاوہ کئی متبادل طریقے ہو سکتے تھے اور انہیں بروئے کار بھی لایا جاسکتا تھا،لیکن ایسا نہیں کیا گیا، بلکہ فوجی عدالتوں میں ہی مقد مات چلا نے پر زور دیا جاتا رہا ہے تو اس کے نتائج کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے ، جو کہ کسی ایک کو ہی نہیں، ساروں کو ہی بھگتنا پڑیں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں