شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کرشماتی لیڈر

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کرشماتی لیڈر

تحریر: گل محمد جکھرانی( سینیئر )
پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن اور اسلامی دنیا کے پہلے منتخب خاتون وزیراعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کا دن ہے آج سے 17 سال پہلے دنیا کی عظیم لیڈر سابق وزیراعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو کو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے عالمی قوتوں کی سازش اور ملی بھگت سے دہشت گردوں کے ہاتھوں پنجاب کے شہر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کروایا شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے علاوہ سینکڑوں پیپلز پارٹی کے کارکن شہید اور زخمی ہوئے۔ آج 27 دسمبر 2024 کو شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی 17ویں یوم شہادت ہے سامراجی قوتوں اور اس وقت کے اسٹیبلشمنٹ کے سازش محترمہ بینظیر بھٹو کو پاکستان کی عوام سے جسمانی طور پر ضرور جدا کیا گیا مگر 17 سال گزرنے کے باوجود شہید محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی کروڑوں عوام کے دلوں پر راج کر رہی ہیں بہرحال 27 دسمبر پاکستان کے علاوہ پوری دنیا کے لیے ایک سیاہ دن ہے 27 دسمبر 2007 وہ بدبخت دن ہے جس دن سندھ دھرتی سے تعلق رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی کروڑوں عوام اور پارٹی کارکنان کو غمگین چھوڑ کر اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی، سازشی کرداروں نے پاکستان کی حقیقی اور مقبول ترین رہنما محترمہ بینظیر بھٹو کو ہم سے جسمانی طور پر جدا کیا گیا۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو اپنے والد قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی نقش قدم پر چلتے ہوئے پوری زندگی غریب عوام کے لیے وقف کر چکی تھی اور اپنی پوری زندگی عوام کے حقوق جمہوریت کی بحالی اور آئین کی بالادستی کے لیے وقف کر چکی تھی شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے جنرل ضیا سے لے کر جنرل مشرف کے تمام ظلم اور جبر کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اور ملک کے اندر جمہوریت کی بحالی اور ائین کی بالادستی کے لیے جدو جہد کرتے ہوئے اپنے جان کا نظرانہ پیش کر کے ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے سیاسی زندگی کا اغاز اس وقت شروع کیا جب دنیا کے ماڈل ڈکٹیٹر فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین سابق وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو ختم کر کے ملک کے اندر مارشلا نافذ کیا اور آمریت کی بنیاد ڈالی جنرل ضیاء الحق نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے بعد انہیں ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر عدالت کے ذریعے پھانسی کی سزا دلوا کر شہید کروا دیا ذلفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی باگ ڈور محترمہ بینظیر بھٹو نے سنبھالیں اس طرح شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے عوام اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو اکیلا نہیں چھوڑا اور عوام کے ساتھ جینے اور مرنے کا فیصلہ کیا انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے ہر جبر اور ظلم و زیادتی کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا بہرحال سازشی قوتوں نے 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک بم دھماکے کے ذریعے انہیں شہید کروا دیا آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں مگر ان کے بتائے گئے اصول اور پارٹی کا منشور ہمارے پاس موجود ہے شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی باقی ماندہ مشن اور لیگیسی کو جاری رکھنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صدر اصف علی زرداری کی قیادت میں جدوجہد جاری ہے بہرحال اج 27 دسمبر 2024 کو گڑھی خدا بخش بھٹو میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر ایک عظیم الشان اور تاریخی جلسہ منعقد ہوگا جس میں پاکستان کے ہر صوبے سے پارٹی کے کارکنان اور لاکھوں کی تعداد میں عوام شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کی برسی کو جوش اور جذبے کے ساتھ منایا جائے گا ملک کے چاروں صوبوں کے علاوہ گلگت بلتستان اور ازاد کشمیر سمیت لاکھوں کی تعداد میں عوام بھرپور شرکت کر کے انہیں سلام عقیدت پیش کریں گے شاید محترمہ بینظیر بھٹو نے جنرل ضیاء سے لے کر جنرل مشرف کے سازشی اور سامراجی قوتوں کے ہر ظلم اور جبر کا دلیری سے مقابلہ کیا محترمہ بے نظیر بھٹو جنرل ضیا کے مارشلا کے دور میں تقریبا ساڑھے پانچ سال جیل میں قید رہیں اور ہر سختی و ظلم کو برداشت کیا واضح رہے محترمہ بے نظیر بھٹو 1984 سے لے کر 1985 تک بیرون ملک جلاوطنی کی زندگی بھی گزاری جلاوطنی کے دوران ان کے چھوٹے بھائی شاہ نواز بھٹو کو شہید کروایا گیا مگر انہوں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور جنرل ضیا کے آمرانہ حکومت کے خلاف اپنے جدوجہد کو جاری رکھا۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے جلاوطنی کو ختم کرکے 10 اپریل 1986 کو پنجاب کے شہر لاہور پہنچی جہاں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا تاریخی استقبال کیا گیا جس میں تقریبا 10 لاکھ کے قریب عوام اور پارٹی کے کارکنان نے اپنے محبوب لیڈر کا تاریخی اور شاندار استقبال کیا محترمہ بینظیر بھٹو کی تاریخی استقبال نے اسلام اباد کے ایوانوں کو ہلا دیا محترمہ بینظیر بھٹو کی واپسی کے بعد ملک کے اندر سیاسی ماحول میں گرما گرمی پیدا ہوئی اور بین الاقوامی سطح پر اس نے اپنے سیاسی ساکھ کو مضبوط اور مستحکم کیا۔ ایک کہاوت ہے اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے جس ظالم اور جابر فوجی حکمران جنرل ضیا نے تیسری دنیا کے لیڈر پاکستان کے عظیم لیڈر شہید ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت کے ذریعے قتل کروایا اور ہزاروں کارکنان کے اوپر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے اخر کار ان کا خاتمہ 1988 میں ایک جہاز کے حادثے میں ہوا اس طرح شہید بھٹو اور جمہوریت پسند سیاسی کارکنان کے قاتل اپنے منطقی انجام کو پہنچے اور جنرل ضیا کا اخری دیدار بھی ان کے خاندان سمیت کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا بہرحال جنرل ضیاء الحق کے ہلاکت کے بعد 1988 میں ملک کے اندر عام انتخابات کروائے گئے جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کر کے سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری 1988 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد دنیا کی پہلی اور عالم اسلام کی پہلی مسلم خاتون محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر 1988 کو پاکستان کے وزیراعظم کے حیثیت سے حلف اٹھا کر پوری دنیا اور عالم اسلام میں ایک ریکارڈ قائم کیا اج اس عظیم خاتون سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی 17ویں برسی کو بڑے جوش و جذبے عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنان نے بہت سارے نشیب و فراز دیکھے اس کے باوجود اج بھی پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے دنیا کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو دنیا کے بہت سارے مشہور لیڈروں کو کسی نہ کسی طریقے سے مروایا گیا مگر جو ظلم پاکستان کے اندر ذولفقار علی بھٹو اور ان کے خاندان کے ساتھ ہوا ان کی مثال پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ملتی جس کی واضع مثال یہ ہے ذولفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو میر مرتضیٰ بھٹو اور میر شاہنواز بھٹو کو بے دردی سے قتل کروایا گیا جو دنیا کے بڑے صدموں میں سب سے بڑا صدمہ ہے بھٹو خاندان کے ساتھ جو ظلم اور زیادتی ہوئی ہیں اس کو اج بھی پاکستان کی عوام یاد کر کے روتے رہتے ہیں واضح رہے مادر جمرد بیگم نصرت بھٹو نے ان تمام ظلم اور زیادتیوں کو اپنے انکھوں سے دیکھا اخر کار ان صدموں کی وجہ سے وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئی 27 دسمبر 2007 پاکستان کے تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن ہے محترمہ بے نظیر بھٹو چاروں صوبوں کی زنجیر تھی جس کو ظالموں نے قتل کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا کیا لیکن ان کے شہادت کے بعد پاکستان کی بنیادیں کمزور ہو گئی تھی مگر ان حالات کے باوجود صدر پاکستان اصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ملک دشمن عناصر کی سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے شہادت کے دن کے موقع پر ایک بات پر ضرور تبصرہ کروں گا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے گزشتہ دو سالوں میں کیا کھویا اور کیا پایا واضح رہے کہ دو سال پہلے 27 فروری 2022 کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کارکنان اور عوام کے ساتھ عمران خان کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا کراچی سے اسلام اباد تک اغاز کیا تھا چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں میں عوامی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے اخری جلسہ ڈی چوک اسلام اباد میں کیا اسلام اباد کے جلسے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے مستفی ہونے کا مطالبہ کیا بہرحال ملک کے اندر ایسے حالات ایسے پیدا ہوئے اخر کار عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا پی ٹی ائی حکومت کے خاتمے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے آشیرواد کے ساتھ مختلف جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہو گئی جس میں مسلم لیگ نواز کے شہباز شریف کو پاکستان کا وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو وزیر خارجہ مقرر کیا گیا جیسے ہی پی ڈی ایم نے حکومت سنبھالی تو کچھ وقت کے اندر بارشوں اور سیلاب نے ملک کے اندر تباہی مچا دی جس کی وجہ سے کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے اور ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا اس کے علاوہ ملک کے اندر مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہوا مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام کا جینا دو بھر ہو گیا اس وقت کے وزیر خارجہ پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سیلاب متاثرین کے بحالی کے لیے دن رات محنت کی اور مختلف ممالک دورے بھی کیے تاکہ پاکستان کی معیشت کو بحال کرایا جا سکے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بحیثیت وزیر خارجہ دن رات کام کرکے ثابت کیا کہ وہ ملک کے کامیاب ترین وزیر خارجہ ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جب سے وزیر خارجہ بنے تو اس وقت سے لے کر اج تک ان کا پارٹی کارکنان اور عوام سے رابطے کا رابطہ کم ہے رابطے کی فقدان کے علاوہ نواز لیگ اور مختلف قوتوں کے ساتھ مفاہمت کی وجہ سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے پارٹی کارکن اور سپورٹر مایوسی کا شکار ہوئے یا خاموشی اختیار کر کے ایک سائیڈ پہ ہو گئے جس کی واضح مثال 28 فروری 2024 کے عام انتخابات ہیں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب میں کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں ملا جو ایک تشویش ناک بات ہے مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری نے نواز لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کرکے اہم آئینی عہدے ضرور حاصل کیے پر اس مفاہمت کی وجہ سے پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں اسٹیبلشمنٹ کے مخالف پیپلز پارٹی کے کارکن اور ووٹر ناراض ہو کر خاموش ہو گئے پیپلز پارٹی نے وفاق میں کوئی وزرات نہیں لی مگر اس کے باوجود وہ مسلم لیگ نواز کی حکومت کی ہر قسم مدد کررہی ہے جس میں 26ویں ائینی ترمیم سمیت مختلف معاملات شامل ہیں دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نواز کا پاکستان پیپلز پارٹی کو کوئی اہمیت نہیں دیا جا رہا ہے اور پنجاب کے اندر پاور شیئرنگ پر بھی ابھی تک کوئی عمل نہیں ہوا نواز لیگ عملی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کو کھڈے لائن لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بہرحال پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صدر آصف علی زرداری سمیت پارٹی کی مرکزی قیادت کو چاہیے کہ وہ پارٹی کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے نواز لیگ کے ساتھ مفاہمتی پالیسی پر نظر ثانی کریں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قربانی دینے والے سینیئر کارکنان کو اہمیت دی جائے اور ان کو اہم عہدے دیے جائیں اس کے علاوہ سندھ اور پنجاب میں صوبائی لیول سے لے کر ڈویژن سطح تک نئے سر تنظیم سازی کی جائے تاکہ پاکستان پیپلز پارٹی مضبوط ہو سکے۔

اپنا تبصرہ لکھیں