ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
آج کل آن لائن فراڈ اسکیم پوری دنیا میں گردش کررہی ہیں، جن میں سب سے بڑا اسکیم فیوچر ٹاسک تھا جس پاکستان کھربوں سرمایہ ہڑپ کرکے رفو چکر ہوگیا۔ جن میں ایک آن فراڈ کمپنی “سائنو ٹرانس” بھی جس نے خیبرپختونخوا کے تحصیل دروش چترال لوئر میں اپنا باقاعدہ دفتر کھول کر عوام کا سرمایہ لوٹ کر فرار ہوگئے اور اپنا دفتر بھی بند کرکے رفو چکر ہو گئے ہیں۔ یہ آن لائن فراڈ اسکیم چترال کے دروش کے عوام کے لیے ایک تلخ حقیقت بن کر سامنے آیا ہے جس نے نہ صرف عوام کا مالی نقصان کیا بلکہ ان کے اعتماد کو بھی شدید دھچکا پہنچایا۔ یہ اسکینڈل نہ صرف معاشی بدعنوانی کے طور پر سامنے آیا ہے بلکہ عوامی شعور، مذہبی رہنمائی اور انتظامی ناکامیوں کے پیچیدہ پہلوؤں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
فراڈ کا طریقہ کار بھی آن لائن فراڈی اور فرضی کمپنیوں کی طرح عوام کو سبز باغ دکھانا تھا۔ سائنو ٹرانس ایک فرضی آن لائن کمپنی تھی جس نے ابتدا میں لوگوں کو سرمایہ کاری کے نام پر سبز باغ دکھائے۔ ابتدائی طور پر لوگوں کو ایک لنک کے ذریعے رجسٹر کیا گیا اور واٹس ایپ گروپس کے ذریعے چینی خواتین ایڈمنز کے ساتھ رابطہ قائم کروایا گیا۔ ان خواتین سے نہ تو کبھی ویڈیو کال پر بات ہوئی اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات فراہم کی گئیں۔ جب عوام نے سوالات کیے تو کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا گیا اور آخر کار کمپنی اپنا ٹارگٹ پورا کرکے کروڑوں لوٹ کر اچانک غائب ہو گئی لنکس ایکسپائر ہو گئے اور چترالی عوام کا سرمایہ ڈوب گیا۔
جب اس فراڈ کا انکشاف ہوا تو علماء کرام نے جامعہ بنوری ٹاؤن اور دارالعلوم کراچی سے فتاویٰ حاصل کیے جن میں اس سرمایہ کاری کو ناجائز اور حرام قرار دیا گیا۔ علماء نے عوام کو خبردار کیا لیکن بدقسمتی سے چند مفاد پرست عناصر نے علماء کے فتاویٰ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی خود ساختہ تشریحات پیش کیں اور عوام کو اس اسکیم میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی۔
دروش انتظامیہ نے اس معاملے میں مکمل خاموشی اختیار کی اور عوام کو دھوکہ دہی سے بچانے کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا۔ افتتاحی تقریب میں مقامی سیاسی اور سماجی شخصیات کی شرکت نے عوام کے اعتماد کو مزید گمراہ کیا اور انتظامیہ نے تحقیقات کرنے کے بجائے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا۔
دروش چترال کے سینکڑوں افراد کے کروڑوں روپے ڈوب گئے جن کی تلافی ممکن نظر نہیں آتی۔
عوام کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں پر اعتماد کو شدید دھچکا پہنچا۔
چترال کے عوام کی اکثریت سائبر فراڈز کے خطرات سے ناواقف تھی جس کا فائدہ اٹھایا گیا۔
سائبر کرائمز اور سرمایہ کاری کے خطرات کے بارے میں آگاہی مہمات چلائی جائیں۔
انتظامیہ کو چاہیے کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرے اور ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لائے۔
علماء کرام کو چاہیے کہ عوام کے ساتھ قریبی تعلق قائم رکھیں اور انہیں ایسے فراڈز سے بچانے کے لیے رہنمائی فراہم کریں
ایسے معاملات کی روک تھام کے لیے مقامی سطح پر سائبر کرائم یونٹ قائم کیا جائے۔
سائنو ٹرانس اسکینڈل نہ صرف ایک مالی فراڈ تھا بلکہ عوامی شعور، مذہبی رہنمائی اور انتظامی ناکامیوں کی ایک پیچیدہ کہانی ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معاشرے کو نہ صرف تعلیم بلکہ شعور اور رہنمائی کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ آئندہ ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔