ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح

ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

میاں بشیر احمد کہتے ہیں “عمر دراز پائے ، مسلماں کی ہے دعا/ملت کا ترجماں ہے محمد علی جناحؒ”۔ بابائے قوم محمد علی جناح کو خراج تحسین کے طور پر یہ نغمہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ستائیسویں اجلاس
منعقدہ لاہور 22 مارچ 1940 بروز جمعۃ المبارک
کو پڑھا گیا۔ اس نغمے میں نہ صرف شاعر نے قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا ہے بلکہ تحریکِ پاکستان کی روح اور مسلمانوں کے اجتماعی جذبات کی عکاسی بھی کی ہے۔

نظم کا مرکزی موضوع قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت، ان کی قیادت اور ان کے کردار کی اہمیت ہے۔ شاعر نے جناح کو ملتِ اسلامیہ کا پاسباں، میرِ کارواں، اور آزادی کی روح قرار دے کر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ہر شعر میں ان کے مختلف اوصاف کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے جیسے:
نظم میں جناح کی مستقل مزاجی اور عزم موضوع بنایا کیا گیا ہے۔
آزادی کے لیے ان کی جدوجہد کو روحِ حریت قرار دیا گیا ہے۔
جناح کو مسلمانوں کے حقوق کی وکالت کرنے پر ملت کا ترجمان قرار دیا گیا ہے۔
شاعر نے نغمے کو ایک جذباتی، خطیبانہ اور عقیدت مندانہ اسلوب میں تحریر کیا ہے۔ ۔نظم کی زبان سادہ اور عام فہم ہے لیکن تشبیہات اور استعارے اسے مزید بلیغ بناتے ہیں مثلاً:
“ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناحؒ”
“رگ رگ میں اس کی ولولہ ہے حب قوم کا”
یہ تشبیہات جناح کی ملت کے ساتھ جذباتی وابستگی اور قیادت کے کردار کو اجاگر کرتی ہیں۔
نظم میں قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ شاعر نے جناح کی شخصیت کو مختلف زاویوں سے پیش کیا ہے جن میں قومی رہنما، “ملت کا پاسباں” اور “میرِ کارواں” جیسے الفاظ جناح کے قائدانہ کردار کو نمایاں کرتے ہیں۔
نظم میں جناح کو بیدار مغز قرار دیا گیا ہے۔ ان کی ذہانت اور سیاسی بصیرت کو “بیدار مغز ناظم” کہہ کر سراہا گیا ہے۔
ان کے عزم کو “تصویرِ عزم” اور “پیری میں بھی جواں” جیسے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔
جناح کے لیے یہ خراج تحسینی یہ نغمہ 1940 کے لاہور اجلاس کے موقع پر پیش کیا گیا، جہاں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی۔ اس وقت مسلم لیگ کو مسلمانوں کے جذبات کو متحد کرنے کے لیے ایک مضبوط بیانیے کی ضرورت تھی اور یہ نغمہ اس مقصد کے لیے موزوں تھا۔ اس میں جناح کی قیادت کو اسلامیانِ ہند کے لیے امید کی کرن کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
نغمے میں “محمد علی جناحؒ” کی ردیف کا مسلسل استعمال ایک موسیقیت پیدا کرتا ہے اور سامعین کو یادگار تاثر دیتا ہے۔
“تقدیر کی اذاں” اور “ایسی کڑی کماں” جیسے استعارے جناح کے کردار کی گہرائی کو اجاگر کرتے ہیں۔
اس نغمے کی وجہ سے شاعر مسلمانوں کے دلوں میں اتحاد، جذبہ اور امید پیدا کرنے میں کامیاب رہا۔
یہ نغمہ اپنی اثر انگیزی اور مقصدیت کے لحاظ سے ایک شاہکار نظم ہے، لیکن اس میں جناح کی شخصیت کو ایک مثالی اور غیر انسانی حد تک بلند کرنے کا رجحان بھی نظر آتا ہے۔ یہ مبالغہ آرائی بعض ناقدین کے لیے غیر حقیقی محسوس ہو سکتی ہے۔
اس نغمے میں شاعر نہ صرف قائداعظم کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے بلکہ تحریکِ پاکستان کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ میاں بشیر احمد کا یہ کلام ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جو آج بھی مسلمانوں کو اپنے رہنما کی قربانیوں اور قیادت کی یاد دلاتا ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے میاں عبدالرشید کا نغمہ “جناح” پیش خدمت ہے۔
*
جناح
*
ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناحؒ
ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناحؒ

صدشکر پھر ہے گرم سفر اپنا کارواں
اور میرکارواں ہے محمد علی جناحؒ

بیدار مغز ناظم اسلامیان ہند
ہے کون؟بے گماں ہے محمد علی جناحؒ

تصویر عزم، جان وفا، روح حریت
ہے کون ؟بے گماں ہے محمد علی جناحؒ

رکھنا ہے دل میں تاب وتواں نو کروڑ کی
کہنے کو ناتواں ہے محمد علی جناحؒ

رگ رگ میں اس کی ولولہ ہے حب قوم کا
پیری میں بھی جواں ہے محمد علی جناحؒ

لگتا ہے ٹھیک جاکے نشانے پہ جس کا تیر
ایسی کڑی کماں ہے محمد علی جناحؒ

ملت ہوئی ہے زندہ پھر اس کی پکار سے
تقدیر کی اذاں ہے محمد علی جناحؒ

غیروں کے دل بھی سینے کے اندر دہل گئے
مظلوم کی فغاں ہے محمد علی جناحؒ

اے قوم! اپنے قائد اعظم کی قدر کر
اسلام کا نشاں ہے محمد علی جناحؒ

عمر دراز پائے ، مسلماں کی ہے دعا
ملت کا ترجماں ہے محمد علی جناحؒ
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں