بچوں کا ادب،عزیر احمد اور زخمی فاختہ

بچوں کا ادب،عزیر احمد اور زخمی فاختہ

(کھوار ادب سے اردو ترجمہ)

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

بالائی چترال پہاڑوں کے دامن میں واقع گاؤں کھوت میراندھ میں عزیر احمد نامی ایک چھوٹا بچہ رہتا تھا عزیر احمد کی عمر 10 سال تھی وہ اپنے والدین کے ساتھ وادی کھوت میں رہتا تھا۔ وہ ایک ذہین اور جرات مند لڑکا تھا، لیکن اس کی زندگی میں ایک کمی تھی وہ یہ کہ اسے ذمہ داری کا احساس کم تھا۔

ایک دن عزیر احمد کی ماں نے اسے گاؤں کے بازار “کھوت جنالی” سے کچھ ضروری سامان لانے کے لیے بھیجا۔ راستے میں عزیر احمد کو ایک چھوٹے فاختے کا زخمی بچہ نظر آیا جو زخم کی وجہ سے پھڑپھڑا رہا تھا۔ وہ اسے اُٹھا کر گاؤں کے قریب ایک درخت کے نیچے لے آیا۔ اور وہ حیرت سے سوچنے لگا کہ کیسے اس فاختے کی مدد کرے۔

اس نے فاختے کو آرام سے اٹھا کر اپنے دستانے میں رکھا اور گھر کی طرف دوڑ لگائی۔ گھر پہنچ کر اس نے اپنے والد سے مدد مانگی۔ والد نے فاختے کا زخم صاف کیا اور اسے ایک چھوٹے سے پنجرے میں رکھ دیا تاکہ وہ آرام کر سکے۔ عزیر احمد نے کہا “اے تات ہیہ زخمی کلکور ٹھیک بویا؟” (بابا کیا یہ زخمی فاختہ ٹھیک ہو جائے گا؟)
والد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، “اگر اسپہ ہموتے کی توجہ پھریتام وا ہموسوم محبت کی اریتم تھے ہیہ شوار شاو ٹھیک بوئے”، (اگر ہم اسے وقت دیں اور ان سے محبت سے پیݰ آئیں گے، تو یہ جلد ٹھیک ہو جائے گا)۔

اگلے چند دن عزیر احمد نے زخمی فاختے کی دیکھ بھال میں گزارے۔ وہ اسے دانے کھلاتا اور پانی دیتا تھا۔ ساتھ ہی وہ اپنی ماں کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹانے لگا۔ اس دوران عزیر احمد نے ایک سبق سیکھا کہ زندگی میں دوسروں کی مدد کرنا صرف ایک کام ہی نہیں بلکہ ایک ذمہ داری بھی ہے۔

ایک ہفتے بعد وہ زخمی فاختہ اُڑنے کے قابل ہو گیا۔ تو عزیر نے اسے ہوا میں اچھال کر آزاد کردیا، فاختہ خوشی خوشی عزیر احمد کے اوپر اڑنے لگا جیسے اس احسان کے لیے اس کا شکریہ ادا کررہا ہو۔ عزیر احمد اور اس کے والد نے اسے آسمان کی طرف اُڑتے دیکھا۔ عزیر احمد کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ والد نے اسے پیار سے کہا، “اے مه شیرین ژاؤ! تو ہنون ہیہ سبقو چیچھیتاو کی بخدیری صرفی خطراتن سوم اشٹوک کوریکو نم تان نو بلکہ خوران بچے تان ذمہ داریان ادا کوریکو نم شیر جما” (بیٹا، تم نے آج یہ سیکھا ہے کہ بہادری صرف خطرات کا سامنا کرنا ہی نہیں، بلکہ دوسروں کے لیے اپنی ذمہ داری نبھانا بھی ہے).

اس دن کے بعد عزیر احمد نے دل میں عہد کیا کہ وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کرے گا، چاہے وہ انسان ہوں یا جانور۔ اس دن کے بعد گاؤں کے لوگ احمد کو صرف ایک ذہین بچہ ہی نہیں، بلکہ ایک ذمہ دار انسان بھی سمجھنے لگے۔

اپنا تبصرہ لکھیں