ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
معین نظامی کا یہ مکتوب تصوف فاونڈیشن کے صدر نشین نصر قریشی کے نام لکھا گیا ہے جو کہ ایک اہم ادبی، علمی اور اخلاقی موضوع پر مشتمل ہے جس میں مولف معین نظامی نے اپنے والد خواجہ غلام نظام الدین معظمی کے ترجمہ کردہ فارسی ملفوظات “مرآۃ العاشقین” کے حوالے سے تصوف فاؤنڈیشن کو باضابطہ طور پر اشاعت کی اجازت دی ہے۔
مکتوب میں معین نظامی نے “مرآۃ العاشقین” کے ترجمے کے علمی معیار کو برقرار رکھنے اور اس کی اشاعت کو بہتر انداز میں کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یہ مکتوب ان کے علمی شعور اور ادبی ورثے کے تحفظ کی عکاسی کرتا ہے۔ مکتوب کے ذریعے وہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ علمی ورثے کی اشاعت محض کاروباری مقاصد کے لیے نہیں بلکہ علمی، اخلاقی، ادبی اور سماجی خدمت کے جذبے سے ہونی چاہیے۔
مکتوب میں کتاب کی غیر قانونی اشاعت اور کاپی رائٹ کی خلاف ورزی جیسے مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مصنف نے ان غیر اخلاقی اقدامات پر نہایت سنجیدگی سے بات کی ہے اور اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کیا ہے کہ ایسے معاملات میں قانونی چارہ جوئی اکثر بے سود ثابت ہوتی ہے۔ مکتوب کا یہ حصہ پاکستان میں علمی و ادبی کاپی رائٹ کے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے اور اس پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔
مصنف نے واضح کیا ہے کہ ان کے والد اور ان کے خاندان نے اس ترجمے کی اشاعت سے کبھی مالی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس بات سے ان کی بے غرضی اور علمی خدمات کا جذبہ نمایاں ہوتا ہے۔ یہ رویہ موجودہ دور میں ایک نادر مثال ہے جہاں اکثر علمی کام کو مالی مفادات کے تابع کر دیا جاتا ہے۔
معین نظامی نے اپنی ذاتی مشکلات، بیماری اور دیگر مسائل کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ “مرآۃ العاشقین” پر اپنے منصوبے کو مکمل نہ کر سکے۔ یہ ان کی علمی دیانت داری اور اپنی ناکامی کا کھلے دل سے اعتراف کرنے کی خوبی کو ظاہر کرتا ہے۔
معین نظامی نے کتاب کی اشاعت کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے تصوف فاونڈیشن کو واضح ہدایات دی ہیں جن میں نستعلیق کمپوزنگ، عمدہ کاغذ اور مناسب قیمت شامل ہیں۔ یہ تجاویز ان کی علمی باریکی اور قارئین کی ضروریات کو سمجھنے کی عکاسی کرتی ہیں۔
مکتوب کا مرکزی موضوع تصوف کی کتاب کی اشاعت ہے جو معین نظامی کی روحانی اور علمی دلچسپیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ مکتوب اس بات کی یاد دہانی ہے کہ تصوف کے علمی ورثے کو نہایت احتیاط اور دیانت داری سے سنبھالنے کی ضرورت ہے۔
مکتوب نگار کا اسلوب نہایت شائستہ، مدلل اور سنجیدہ ہے۔ انہوں نے اپنی بات کو نہایت نرمی اور وضاحت سے پیش کیا ہے جس سے ان کی علمی گہرائی اور اخلاقی معیار کا پتہ چلتا ہے۔
یہ مکتوب ایک علمی، ادبی اور اخلاقی دستاویز ہے جو ادبی ورثے کے تحفظ، علمی دیانت داری اور غیر قانونی اشاعت کے خلاف ایک مضبوط مؤقف پیش کرتی ہے۔ معین نظامی نے نہایت مہذب انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور تصوف فاؤنڈیشن کے صدر نشین کو ایک واضح اور مثبت پیغام دیا ہے کہ علمی ورثے کی اشاعت کو بہتر اور مفید انداز میں انجام دینا ان کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔