GhFZjp WsAAz488

نواب لیاقت علی خان کا قتل: سازش یا حادثہ؟

نواب لیاقت علی خان، پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم، 1951 میں راولپنڈی کے ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قتل کر دیے گئے۔ لیکن یہاں سب سے چونکانے والی بات یہ ہے: اس قتل کی وجہ آج تک واضح نہیں ہو سکی۔ کیا یہ محض ایک حادثہ تھا یا اس کے پیچھے کچھ اور بڑا راز چھپا ہوا تھا؟ ان کی موت کا سچ اتنا پیچیدہ ہے کہ یہ آج بھی ایک حل نہ ہونے والا معمہ ہے۔

16 اکتوبر 1951 کو نواب لیاقت علی خان ایک بڑے عوامی اجتماع میں کھڑے تھے، جب ایک گن مین نے انہیں سینے میں دو گولیاں مار دیں۔ حملہ آور کو فوراً پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ابتدائی طور پر یہ کیس سادہ سا دکھائی دیتا تھا، لیکن کیا یہ واقعی اتنا سادہ تھا؟ ایک نیا ملک جس کے وزیر اعظم کو اس طرح قتل کیا جائے، اس کا کوئی واضح مقصد نہ ہو؟ اس قتل نے کئی سوالات اٹھا دیے۔

پہلا نظریہ جو سامنے آیا وہ تھا سیاسی سازش کا۔ نواب لیاقت علی خان ایک مضبوط رہنما تھے، جو غیر ملکی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ کیا ان کی سیاست نے کسی طاقتور گروہ کو ان کے خلاف سازش کرنے پر مجبور کیا؟ کیا امریکہ یا سوویت یونین جیسے عالمی طاقتوں نے انہیں راستے سے ہٹانے کے لیے کوئی منصوبہ بنایا؟ ان کی خارجہ پالیسی نے عالمی مفادات کو چیلنج کیا تھا، کیا یہ اس قتل کا سبب تھا؟ لیکن کیا اس کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود تھا؟

قاتل، سید اکبر، کی شناخت بھی ایک اور معمہ ہے۔ اسے فوراً مار دیا گیا، اور بعض رپورٹوں کے مطابق اس کا تعلق غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں سے تھا، حالانکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ کیا وہ کسی بڑے منصوبے کا حصہ تھا؟ یا وہ محض ایک پاگل شخص تھا جس کا ذاتی انتقام تھا؟ اس کے مقصد کی حقیقت آج بھی غیر واضح ہے۔ لیکن کیا اگر اکبر کے ارادے وہ نہیں تھے جو ہم نے سوچا؟

حکومت کی تحقیقاتی کمیٹی نے زیادہ معلومات نہیں فراہم کیں۔ درحقیقت، اس تفتیش نے زیادہ سوالات پیدا کیے بجائے اس کے کہ جواب دے سکیں۔ تحقیق کاروں نے جلد ہی کیس بند کر دیا اور کہا کہ سید اکبر ایک اکیلا قاتل تھا، لیکن انہوں نے اس کے ممکنہ روابط یا مقصد کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ حکام نے اتنی جلدی تحقیقات کیوں ختم کی؟ کیا وہ کچھ چھپانا چاہتے تھے؟ انہیں کس بات کا خوف تھا؟

نواب لیاقت علی خان کے قتل کے بعد، کئی سازشی نظریات نے جنم لیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی موت مقامی اشرافیہ کے کسی گروہ نے اس لیے منصوبہ بندی کی کیونکہ وہ ان کی طاقت سے خوفزدہ تھے۔ دوسروں کا ماننا ہے کہ اصل ماسٹر مائنڈ کبھی نہیں پکڑا گیا۔ اس قتل کی حقیقت آج بھی پردے میں ہے اور ہر گزرتا دن اس معمہ کو اور پیچیدہ بناتا جا رہا ہے۔ کیا کبھی ہمیں اس قتل کا پورا سچ پتہ چلے گا؟

تو پھر نواب لیاقت علی خان کے قتل کا حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ محض ایک اکیلا واقعہ تھا یا اس کے پیچھے کوئی بڑی سیاسی چال تھی؟ ان کی موت پر خاموشی خود بہت کچھ کہتی ہے، اور یہ سوالات ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں رہیں گے۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کبھی اس قتل کا مکمل سچ معلوم ہو پائے گا؟ یا ہم ہمیشہ کے لیے ان سوالات کے ساتھ زندہ رہیں گے؟

اپنا تبصرہ لکھیں