سندھیوں اور بلوچوں کے درمیان کوئی جغرافیائی تقسیم نہیں ہے

سندھیوں اور بلوچوں کے درمیان کوئی جغرافیائی تقسیم نہیں ہے

عاجز جمالی
موجودہ سندھ کے جغرافیائی حدود میں لاکھوں کی تعداد میں نسلی طور پر بلوچ کہلوانے والے رہتے ہیں۔ سندھ کا کوئی بھی ایسا خطہ نہیں ہے جہاں نسلی طور پر بلوچ نہ رہتے ہیں۔ یہ تمام لوگ سینکڑوں برس قبل ہجرت کرکے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوں گے۔ جن میں طاقت ور بلوچ قبائل کے لوگ بھی شامل ہیں۔ جن میں رند ، لاشاری ، لغاری، جمالی، جتوئی ، جانوری ،جسکانی ، چانڈیو ، مری، ٹالپر ، ڈومکی ، کھوسو، مگسی، مغیری ، رستمانی ،عمرانی ، مستوئی ، کلمتی ، لوند، جکھرانی ، مزاری ، برہمانی، جت، زرداری، سمیت کئی قبائل ہیں۔ جن میں کئی قبائل سرائیکی بولتے ہیں تو کئی قبائل آج بھی بلوچی بولتے ہیں۔ بعض قبائل کی خواتین آج بھی بلوچی لباس پشک، گج وغیرہ پہنتی ہیں۔ مرد بلوچی پگ پہنتے ہیں۔ ہمارے اپنے آبائو اجداد بلوچی لباس پہنتے تھے ہم گھروں میں آج بھی بلوچی بولتے ہیں۔ لہجے کے اعتبار سے ہماری بلوچی اور بلوچستان کی بلوچی میں کچھ فرق ضرور ہے۔ کہنے کی بات ہے کہ سندھ میں رہنے والے لاکھوں بلوچ بلکہ میرا خیال ہے صوبہ سندھ کی ابادی اگر 5 کروڑ ہے تو اس میں 3 کروڑ سے زائد وہ لوگ ہیں جو بلوچ قبائل سے تعلق رکھتے ہیں یا نسلی طور پر خود کو بلوچ سمجھتے ہیں۔ لیکن سندھ میں بسنے والے ان تمام بلوچ قبائل نے خود کو سینکڑوں برسوں سے سندھی قوم میں شامل کر لیا۔ سندھ کی تاریخ ، تہذیب ، روایات ، اور معاشی مفادات کے ساتھ خود کو جوڑ لیا۔ خود کو سندھی قوم کا حصہ تصور کر لیا۔ اور سندھی قوم بننے پر فخر محسوس کیا۔ سندھ کی تاریخ اور لوک ادب پر سب سے زیادہ کام ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے کیا۔ بلکہ سندھ کی تاریخ گواہ ہے کہ سندھ پر ہونے والے حملوں کے خلاف سندھ میں بسنے والے بلوچ قبائل نے حملہ آوروں کے خلاف جنگیں لڑی ہیں۔ سندھ میں بسنے والے بلوچ قبائل کے لوگ سندھ دھرتی کے محافظ رہے ، سندھ پر فخر کرتے رہے۔ کلاچی کی تاریخ بھی سینکڑوں برس قدیم ہے تین سو سال قبل تو شاہ عبد الطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں کلاچی کا ذکر کیا ہے
اگر ماضی پر جائیں گے اور تاریخ پر جائیں گے تو موجودہ سندھ کی حدود ایک جانب ملتان تک تھیں اور دوسری جانب لسبیلہ تک تک تھیں جس کا سندھی نام لسٻيلو ہے۔ یہ لاسی قبیلے کا علاقہ ہے جو آج بھی سندھی زبان بولتے ہیں۔ لیکن تاریخ کا جبر ہی سہی پاکستان بننے کے بعد جو تقسیم ہوئی اس کو سب نے قبول کر لیا۔ تاریخ میں کبھی یہ بھی ہوا ہوگا کہ کراچی کو جرمانے میں بلوچستان کو دیا گیا ہوگا۔ لیکن موجودہ جغرافیائی حدود میں کراچی سندھ کا دارالخلافہ ہے۔ پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے ون یونٹ لگا کر کراچی کی حیثیت ختم کرنے کی بھی کوشش کی گئی ، اس کے بعد بھی کراچی کی تقسیم کی سازشیں ایک بار دو بار نہیں کئی بار ہوئی ہیں۔ اب تک یہ کوشش جاری ہے۔ کراچی کو مہاجر صوبے کا نام دینے کی بھی کوشش کی گئی۔ کراچی میں ایک سازش کے تحت جنرل ضیاء کے دور میں لسانی اور نسلی تقسیم ہوئی۔ مذہبی فرقے بنے۔ لوگوں کو آپس میں لڑوایا گیا ، کبھی پٹھان مہاجر کبھی سندھی مہاجر تو کبھی بلوچ مہاجر تضادات کو ہوا دی گئی ، یہ حقیقت ہے کہ کراچی کثیرالقومی شہر ہے جس میں اردو بولنے والے مہاجر ،سندھی بلوچ پشتون، سرائیکی، مطلب کہ ہر قومیت کے لوگ رہتے ہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں افغانی بھی رہتے ہیں۔ تو کیا اکثریت کی بنیاد پر کوئی یہ کہے گا کہ یہ شہر ہمارا ہے۔ ایسے تو نہیں ہو سکتا۔ اب جب کوئی سندھی یہ دعوا نہیں کر سکتا کہ لسبیلہ یا ملتان سندھ کے شہر ہیں۔ اسی طرح سندھ کے کسی بھی شہر کے بارے میں کسی دوسرے صوبے کا شہری دعوا نہیں کر سکتا۔ رہی بات سندھیوں اور بلوچوں کی وہ تو صدیوں سے ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔ شاید کسی اور قومیت کا لیڈر دعوا کرے تو سندھیوں کو شاید اتنا افسوس نہیں ہوتا۔ کوئی بلوچ لیڈر یہ بات کہے تو دکھ زیادہ ہوتا ہے اور یہ بات سندھ کی تقسیم کے تناظر میں چلی جاتی ہے ،ایسی بات ہر سندھیوں کا رد عمل فطری ہے۔ حالانکہ سندھ اور بلوچستان کے درمیاں کوئی بھی جغرافیائی تقسیم موجود نہیں ہے
سندھ کے دارلخلافہ کراچی میں تمام بلوچ رہنماؤں کے گھر موجود ہیں۔ اس سے کوئی انکار بھی نہیں کہ کراچی میں لاکھوں بلوچ رہتے ہیں لیکن نواب خیر بخش مری ،میر غوث بخش بزنجو ، سردار عطاء اللہ مینگل ،اور نواب اکبر بگٹی جیسے بلوچ رہنما بھی ہمیشہ کہتے رہے کہ کراچی سندھ کا دل ہے اور سندھی ہمارے ازلی اتحادی ہیں۔ کراچی کی تقسیم یا کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی بات اور کراچی کو الگ صوبہ قرار دینے میں بھلا کیا فرق ہے۔ ایم کیو ایم کراچی کو الگ صوبہ بنانے کی بات کرتی ہے اور اگر کوئی بلوچ رہنما کہے کہ کراچی بلوچستان کا شہر ہے۔ تو پھر ان دونوں سوچوں میں کیا فرق ہے۔ جب اس بات کی مخالفت کی جائے تو طعنہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا دیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی نہ سندھ ہے اور نہ تمام سندھی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں۔ بلکہ سب جانتے ہیں کہ وفاق اور صوبوں میں حکومت کون چلا رہا ہے۔ بھلا جب نواب اکبر بگٹی کو شہید کیا گیا تھا تو بلوچستان میں بظاہر کسی بلوچ کی حکومت نہیں تھی۔ اور جس کی حکومت تھی وہ جنرل کا چھاڑتا تھا۔ اسی طرح سندھیوں نے ہر دور میں بلوچستان میں ہونے والی ریاستی دہشت گردی اور تشدد کی مذمت کی ہے۔ کیا پیپلز پارٹی کی حکومت میں سندھیوں پر تشدد نہیں ہوتا۔ سندھی خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹا نہیں جاتا۔ یہ سب شرم ناک ہے کسی بھی سیاسی جماعت پر ریاستی تشدد قابل مذمت ہے ،بیشک حکومت پیپلز پارٹی کی ہی کیوں نہ ہو، لیکن تشدد کو بنیاد بنا کر سندھ کے دارالخلافہ پر تو دعوا نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یہ کوئی شعوری بات نہیں تھی۔ اگر کوئی زبان پھسل گئی تھی تو اس کی دوسرے دن وضاحت ضروری تھی ،لیکن کافی دنوں کے بعد بھی اسی موقف پر خاموشی ہے ، تو پھر سندھی کیا سمجھیں۔ میں ذاتی طور پر بلوچوں کے حقوق کا سب سے بڑا حامی رہا ہوں ،ماضی میں میرے لکھے گئے مضامین ریکارڈ پر ہیں۔ ماما قدیر بلوچ کے لانگ مارچ سے ماہ رنگ بلوچ کی جدوجہد تک میں نے حمایت کی ہے۔ لیکن سندھ دھرتی پر ہمیشہ فخر کیا ہے۔ سندھ کے خلاف کوئی بات قابل برداشت نہیں، ایسی بات کوئی بھی دانستہ یا نا دانستہ کرتا ہو وہ قابل قبول نہیں۔ البتہ کسی سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اپنی غلطی پر معذرت خواہ ہونا کوئی بری بات نہیں ہے۔ بلکہ کسی فرد کی غلطی دو قوموں کے درمیان غلط فہمیوں کی وجہ نہیں بننی چاہئے ، سندھی اور بلوچ دونوں اس خطے کی با شعور اور مظلوم قومیں ہیں۔ غیر دانستہ طور پر بھی مظلوم قوموں کے اتحاد کو ٹھیس پہنچانا افسوس ناک ہوگا۔

اپنا تبصرہ لکھیں