ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
وہ پاکستانی جو دوہری شہریت رکھتے ہیں ان کی تعداد سینکڑوں نہیں ہزاروں میں ہے۔ جو ایک سوالیہ نشان ہیں۔ اگر وہ پاکستانی اپنے ملک پاکستان سے مخلص ہیں تو وہ دوہری شہریت کیوں رکھتے ہیں؟ یہ ایک حل طلب سوال ہے۔پاکستانی بیوروکریسی اور سرکاری مشینری کی شفافیت، حب الوطنی اور وفاداری ہمیشہ سے زیر بحث رہی ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت مقدمے میں پیش کی گئی ایک فہرست نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے جس کے مطابق ملک کے 22,380 سرکاری افسران دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ ان میں سے کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، جن میں پولیس، بیوروکریسی، خزانہ، توانائی، مواصلات، تعلیم، صحت اور دیگر اہم محکمے شامل ہیں۔ اس انکشاف نے 24 کروڑ پاکستانیوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
اب ایک بنیادی سوال یہ پوچھا جارہا ہے کہ کیا دوہری شہریت ملک سے مخلص ہیں اور کیا یہ قومی ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ تو نہیں ہیں؟ دوہری شہریت رکھنے والے افسران کی موجودگی سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کی وفاداری مکمل طور پر پاکستان کے ساتھ ہے؟ سرکاری ملازمین، بالخصوص پالیسی ساز اداروں میں کام کرنے والے افراد، ملکی مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ کسی اور ملک کی شہریت رکھتے ہیں تو کیا وہ مشکل وقت میں پاکستان کے مفاد کو ترجیح دیں گے؟ میری ناقص رائے میں ہرگز نہیں۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ حساس اداروں میں کام کرنے والے ایسے افراد جو کسی دوسرے ملک کے شہری بھی ہیں کیا کسی غیر ملکی دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں؟ عالمی سطح پر اس نوعیت کے خدشات کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔اہم شعبوں میں دوہری شہریت رکھنے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ سپریم کورٹ میں پیش کردہ فہرست کے مطابق سب سے زیادہ دوہری شہریت رکھنے والے افراد محکمہ تعلیم (140 سے زائد)، قومی ایئر لائن (80 سے زائد)، لوکل گورنمنٹ (55)، اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر (55)، سائنس و ٹیکنالوجی (60)، زراعت (40)، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن (20)، آبپاشی (20)، سوئی سدرن (30)، سوئی ناردرن (20)، اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (14) میں تعینات ہیں۔
اہم حکومتی عہدوں پر فائز افسران میں گریڈ 22 کے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا، وفاقی سیکرٹری انسانی حقوق، سیکرٹری بورڈ آف انویسٹمنٹ، ڈی جی پاسپورٹ و امیگریشن، سیکرٹری سرمایہ کاری بورڈ، سیکرٹری اوقاف پنجاب، مراکش اور قطر کے سابق سفیر، کسٹمز اور پولیس سروس کے اعلیٰ افسران شامل ہیں۔
اگرچہ پاکستانی آئین سرکاری افسران کے لیے دوہری شہریت پر کوئی واضح پابندی نہیں لگاتا لیکن مختلف قوانین کے تحت کچھ پابندیاں ضرور عائد کی گئی ہیں۔ سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو سرکاری افسران کو دوہری شہریت رکھنے سے روکتا ہو۔ تاہم حساس اداروں اور پالیسی ساز عہدوں پر کام کرنے والے افراد کے لیے ایک سخت ضابطہ اخلاق ہونا ضروری ہے۔
یہ بھی غور طلب ہے کہ اگر سیاستدانوں کے لیے دوہری شہریت رکھنے پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے تو پھر بیوروکریسی، عدلیہ، پولیس اور دیگر حساس اداروں میں کام کرنے والے افراد کے لیے یہی اصول کیوں نہیں اپنایا جا سکتا؟ اس سوال کا جواب بھی حل طلب ہے۔
سپریم کورٹ میں پیش کردہ اس رپورٹ کے بعد عوامی سطح پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ عوام کا سوال ہے کہ اگر ان افسران کو پاکستان کے نظام پر یقین ہوتا تو وہ کسی دوسرے ملک کی شہریت لینے پر کیوں مجبور ہوتے؟ کیا یہ اس بات کی علامت نہیں کہ وہ پاکستان میں طویل مدتی طور پر قیام کرنے اور یہاں اپنی نسلوں کو پروان چڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے؟
دوہری شہریت کے حامل سرکاری افسران کی تفصیلی جانچ پڑتال کی جائے۔حساس عہدوں پر موجود دوہری شہریت رکھنے والے افسران کی مکمل جانچ ہونی چاہیے کہ آیا وہ کسی بھی ملک کے لیے مفادات کا ٹکراؤ پیدا کر رہے ہیں یا نہیں۔
اس سلسلے میں واضح پالیسی سازی کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان میں کسی بھی سرکاری عہدے پر فائز ہونے والے فرد کے لیے دوہری شہریت پر پابندی عائد کی جانی چاہیے، خاص طور پر گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسران کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے۔
عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے ملک کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے والے افراد کون ہیں اور ان کی وابستگیاں کس کے ساتھ ہیں۔
سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کر کے دوہری شہریت کے حامل افراد کو حساس اداروں اور کلیدی عہدوں پر تعینات کرنے پر پابندی لگائی جائے۔
کسی بھی قیمت پر قومی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ ان افسران کو اہم قومی پالیسیوں اور حساس معلومات تک رسائی دینے سے قبل ایک سخت سکیورٹی کلیئرنس کا عمل متعارف کرایا جائے۔
سپریم کورٹ میں پیش کردہ یہ رپورٹ محض ایک فہرست ہی نہیں بلکہ ایک آئینہ بھی ہے جو ہماری بیوروکریسی کی حقیقت کو عیاں کر رہی ہے۔ اگر اس مسئلے پر فوری توجہ نہ دی گئی تو ملکی خودمختاری اور پالیسی سازی میں بیرونی اثر و رسوخ کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔ پاکستان کی ترقی، استحکام اور خودمختاری کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی مشینری میں صرف وہی افراد شامل ہوں جو پاکستان کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی رکھتے ہوں اور جن کے قومی مفادات کسی دوسرے ملک کے مفادات سے مشروط نہ ہوں۔ امید ہے کہ ارباب اختیار اس قومی اور ملکی سلامتی کے معاملے پر خود کو جھنجوڑنے کی زحمت گوارا کریں گے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔