ایک تحریر
حضرت عُمر رَضی اللّہ عَنہم فرماتے ھیں کہ جب مَیں حضرت عَیاش بِن ابِی ربِیعہ اور حضرت ہِشام بِن عَاص رَضی اللّہ عَنہما نے مدینہ ہِجرت کرنے کا ارادہ کیا تو ہم نے سَرِف مقام سے اُوپر کی جانب بنو غفِاَر کے حوض کے کنارے وادی تَناَضِب میں جمع ہونا طے کیا اور ہِم نے کہا کہ ہم میں سے جو بھی صبح کو وہاں پہنچا ہوا نہ ہوگا تو سمجھا جائے گا کہ اسے روک لیا گیا ہے۔
لہٰذا اس کے باقی دونوں ساتھی چلے جائیں گے۔ چنانچہ میں اور حضرت عَیاش تو صبح تَناَضِب پہنچ گے، اور حضرت ہِشام کو ہمارے پاس آنے سے روک لیا گیا، کافروں کو طرف سے انہیں آزمائش میں ڈالا گیا اور وہ آزمائش میں پڑ گئے یعنی اِسلام سے پھِر گئے۔
جب ہم مدینہ آۓ تو قُباء میں بنو عَمرو بِن عَوف کے ہاں ٹھرے ، حضرت عَیاش ‘ اَبوجہل بِن ہشام اور حارث بِن ہشام کے چچا زاد بھائی اور ماں شریک تھے۔ اَبو جہل اور حارث حضرت عَیاش کو واپس لیجانے کے لیے مدینہ آۓ اور رسول اللّہ صَلّیَ اللّہ عَلَیہ وَسَلم مکّہ ہی میں تھے۔ اُن دونوں نے حضرت عَیاش سے بات کی اور ان سے کہا کہ تمہاری ماں نے یہ نذر مانی ہے کہ جب تک وہ تمہیں دیکھ نہ لیگی نہ سَر میں کنگھی کرے گی اور نہ دھوپ سے سایہ میں جائے گی . ماں کا یہ حال سُن کر حضرت عَیاش کا دِل نَرم پڑ گیا۔
حضرت عُمر رَضی اللّہ عَنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اُن کو کہا اللّہ کی قسم ! یہ لوگ تم کو تمہارے دیِن سے ہٹانا چاہتے ہیں ان سے چُوکنے رہو . اللّہ کی قسم ! جب جُوئیں تمہاری ماں کو تنگ کریں گی تو وہ ضرور کنگھی کرے گی۔ اور جب مکّہ کی گرمی اُس کو ستاۓ گی تو وہ ضرور سایہ میں چلی جائے گی . اس پر حضرت عیاش (رض) نے کہا میں اپنی ماں کی نزر بھی پوری کر کے آتا ھوں اور میرا کچھ مال ھے وه بھی لیکر آتا ھوں۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ھیں کہ میں نے کہا الله کی قسم ! تمھیں خوب معلوم ھے میں قریش کے بڑے مالداروں میں سے ھوں تم ان کے ساتھ مت جاؤ ۔ میں تمھیں اپنا آدھا مال دیتا ھوں لیکن انھوں نے میری بات نہ مانی اور ان دونوں کے ساتھ جانے پر مصر رھے .
جب انھوں نے انکے ساتھ جانے کی ٹھان هی لی تو میں نے ان سے کہا تم نے جو کرنا تھا کرلیا ھے تو میری اونٹنی لے لو یہ بڑی عمده نسل کی ھے اور مان کر چلنے والی ھے ، تم اس کی پیٹھ پر بیٹھے رھنا ، اگر تمھیں ان دونوں کی کسی بات سے شک ھو تو اس پر بھاگ کر اپنی جان بچالینا۔ چنانچہ وه اس اونٹنی پر سوار ھوکر ان دونوں کے ساتھ چل پڑے ، راستہ میں ایک جگہ ابوجہل نے ان سے کہا اے میرے بھای ‘ الله کی قسم ! میرا یہ اونٹ سست پڑ گیا ھے۔ کیا تم مجھے اپنی اس اونٹنی پر پیچھے نہی بٹھالیتے ؟
حضرت عیاش نے کہا ‘ہاں ضرور – اور انھوں نے اپنی اونٹنی نیچے بٹھالی . ان دونوں نے بھی اپنے اونٹ نیچے بٹھالیۓ تاکہ ابوجہل ان کی اونٹنی پر سوار ھوجائے . جیسے ھی وه زمین پر اترے تو یہ دونوں حضرت عیاش پر جھپٹے اور انھیں رسی سے اچھی طرح باندھ لیا اور انھیں مکہ لے گئے اور ان اسلام سے ہٹانے کے لیے ان پر زور ڈالا . آخر وه اسلام کو چھوڑ گئے . هم یہ کہا کرتے تھے کہ جو مسلمان اسلام کو چھوڑ کر کفر میں چلا جائے گا پھر الله اس کی توبہ قبول نہی کریں گے اور اسلام چھوڑ کر چلے جانے والے بھی یہی سمجھتے تھے۔
یہاں تک کہ حضور صلی الله علیه وسلم مدینہ تشریف لے آئے اور الله تعالی نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ۔
ترجمہ:- کہہ دے اے میرے بندے . جنھوں نے کہ زیادتی کی ھے اپنی جانوں پر . آس مت توڑو اللہ کی مھربانی سے . بیشک الله بخشتا ھے سب گناه . وه جو ھے وھی ھے گناه معاف کرنے والا مہربان۔
حضرت عمر (رض) فرماتے ھیں کہ میں یہ آیتیں لکھ کر حضرت هشام بن عاص کے پاس بھیج دیں . حضرت هشام کہتے ھیں کہ جب یہ آیتیں میرے پاس پہنچی تو میں انکو ذی طوئ کے مقام پر پڑھنے لگا انکو اوپر نیچے دیکھنے لگا مگر مجھے انکا مطلب سمجھ نا آیا ‘ یہاں تک کہ میں نے دعا مانگی ‘ اے الله ! یہ آیتیں مجھے سمجھا دے . پھر الله نے میرے دل میں انکا مطلب ڈالا کہ یہ آیتیں ھمارے بارے میں نازل ھوئیں ھیں
الله تعالی نے یہ آیتیں نازل فرما کر بتایا ھے کہ توبہ قبول ھوجائے گی ، جب یہ مطلب میری سمجھ میں آگیا اور مجھے اپنی توبہ قبول ھوجانے کی بات معلوم ھوگئی تو میں اپنے اونٹ کے پاس آیا اور اس پر سوار ھوکر مدینہ حضور صلی الله علیه وسلم کی خدمت میں حاضر ھوگیا۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ کا مسلمان ہوجانا فتح اسلام تھا اور ان کی ہجرت ’’نصرت الٰہی‘‘ تھی اور ان کی خلافت اﷲ تعالیٰ کی رحمت تھی۔ (حیاة الصحابه حصه اول صفحه 384)