تحریر:سیدہ نزہت ایوب کاظمی(اسلام آباد)
اپنے با ادب قاری کے ساتھ آج کی گُفتگو کا جوموضوع لیکر حاضر ہوئی ہوں اس کاعنوان ہے،، فاصلہ گھٹائو،، ۔مگر اس سے پہلے دل کی وہ باتیں جو دل راز و نیاز کی صورت خود سے ہی اکثر کرتا ہے، پر جب بے چینی سوا ہوتی ہے تو دل کی یہ باتیں قرار تلاشتی زبان پر آجاتی ہیں ۔کوئی بھی انسان ہو ،مذہب کچھ بھی ہو با کردار ،باحیا و باوفا ہی جچتا ہے۔کیونکہ انسانی فطرت کا تقاضا ہی یہی ہے۔
فطرت پر پیدا ہونے والا عبد یا بندی انہی فطری تقاضوں کی پاسداری کے مطابق اپنی حیات تمام نہ کرپائیں تو زیستِ ڈگر پر ڈگمگانے کے ہر پل خطرات شدید ہیں۔اس کے علاوہ روحانی و قلبی قرار بھی فطری تقاضوں کو نبھانے سے ہی حاصل ہوتا ہے ۔تبھی تو حق و باطل اور جنت و دوزخ کا تصور دنیا میں موجود تمام اقوام کے مذاہب میں پایا جاتا ہے ۔زمین پر بسنے والے سبھی انسان اگرچہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہوں ۔الگ الگ نظریات کے مالک ہوں ۔مقصدِ حیات بے شک سب کا جدا ہو ۔زندگی گزارنے کا طریقہ مختلف ہو ۔
رہن سہن ،رسم و رواج ایک جیسے نہ ہوں مگر ایک چیز جو ساری خلقت کو ایک پلیٹ فارم پر لے آتی ہے یعنی جو چیز سبھی کو یکجا کر دیتی ہے وہ ہے انسانیت ۔جی ہاں بالکل وہ راہ ،وہ ڈگرانسانیت کی ہی ہے جو سبھی مخلوق کو پکارتی ہے کہ ایک ساتھ سب مل کر میری طرف بڑھ آئوتمہارا مذہب کچھ بھی ہے بس انسانیت دل میں رکھ کر چلے آئو ۔اور میری آغوش سے راحتِ دل ،قرارِ جاں پائو ۔ہم اپنی سوچ و افکار میں آزاد ہیں ہاں مگر یہ ضرور ہے کہ ہمیں کوشش کر کے اپنی سوچ بہتر رکھنی چاہئے کہ لازمی بات ہے ہم جو سوچیںگے وہ بولیں گے بھی۔کیونکہ دماغ کی سطح پر ابھرنے والی ہر سوچ کو زبان پر لایا بھی نہیں جاسکتا ۔
اگر ہم ایسا کرنے لگیں تو یقینا ہماری زندگی کے معاملات میں ہر وقت فغیانی کا عالم رہے ۔اور یہ بات تو کئی بار سچ ثابت ہوئی ہے کہ زمین پر جہاں کہیں طوفان آیا ہر شے کو تہہ و بالا کر گیا ۔کبھی کبھی تو زمین کا نقشہ ہی بدل گیا ۔لہذا سوچ پر بے شک پہرے نہیں بٹھائے جا سکتے مگر پھر بھی ہم سوچوں کے گھوڑے کو بے لگام نہیں چھوڑ سکتے کہ بے سوچے اور بے وقت کی بات نے انسانی معاملات کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔اپنے قاری کے ساتھ بات جب سوچ کی ہو ہی رہی ہے تو دل چاہ رہا ہے کیوں نا دل کی ایک بات بے دھڑک کہہ دی جائے ۔
ما شاء اللہ ہم آزاد اسلامی ریاست کے مسلم باشندے ہیں ۔رَبّ ِ محمدؐ کا بھی تقاضا ہے کہ اپنے طور طریقے رسم و رواج سب حقیقت میں اسلامی کر لو ۔ مسلمان کی کوشش بھی یہی رہتی ہے کہ وہ مشکلیں سہہ لے مگر آخرت کی کامیابی حاصل کر لے ۔رب کی رضا پانا ہی درحقیقت ایک رب کے بندے کا مقصدِ حیات ہے ۔بے شک بات ہو رہی تھی دل کی بات کی ۔۔۔۔
میں سوچا کرتی ہوں ہمارے ملک کی خواتین ،لڑکیاں یا بچیاں جس طرح سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے پردگی کو عام کررہی ہیں ۔کبھی جدید تعلیم کے نام پر کبھی وقت کی ضرورت کہہ کر اور کبھی نئے زمانے کے تقاضے بتا کر ۔وہ باقی سب کچھ ہو سکتا ہے مگر اسلام اور رب کی رضا ہر گز نہیں ۔مگر کرب کی بات تو یہ ہے کہ قابو پانے کی بجائے حالات بے قابو ہوتے جارہے ہیں ۔کون ہے جو اس بارے بات کرے ؟کون ہے جو رَبّ کی رضا کے حق میں آواز اٹھائے؟کون ہے جو دھرنا کرے کہ خدارا عورتیں بے مقصد اور بے پردہ گھروں سے باہر مت نکلا کریں؟ کون ہے جو پاکستانی خواتین کو یہ کہہ سکے کہ تم اسلامی ہو ،تمہیں بہت سے مقامات پر اسلام نے آزاد ی دی ہے مگرخالق کی طرف سے کچھ مقامات پر پابند بھی کر دی گئی ہو۔
پہلی فہرست میں تمہارا باپردہ رہنا۔کیونکہ خالقِ اعظم کو کسی طور منظور نہیں کہ ایک عورت جب گھر سے باہر نکلے تو چادر سے اپنا سر اور سینہ ڈھانپ نہ لیا کرے ۔ دراصل خواتین کو بات ذرا مشکل سے سمجھ آتی ہے ۔کیونکہ یہ مخلوق وہ ہے جس کی تعریف میں خُدا نے خود فرمایاہے کہ جلد بھول جانے والی ،وسوسے کرنے والی،ابلیس کے جال میں جلد آجانے والی ،زیوروں میں پرورش پانے والی اور جھگڑے کے وقت بات تک نہ کر سکنے والی ۔اس سب کا نتیجہ تو یہی نکلتا ہے کہ اس نفوس کو قرینے سے ،دھیان سے ،دلائل سے اور صبر و ہمت برداشت سے اور پریشان کئے بغیر سیدھے راہ کی طرف لانا پڑے گا۔
تو سوچتی ہوں جتنا معاشرتی ماحول خراب ہو چکا اور جتنا خواتین کے لئے غیر محفوظ ہو چکا نہایت سمجھداری سے حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔کہ وطنِ عزیز کی مائیں ،بہنیں اور بیٹیاںبڑے سکون سے اس بات کو قبول کریں ایک تو بے مقصد گھروں سے باہر نہ نکلیں دوسرا جب بھی نکلا کریں مکمل حجاب میں ہوا کریں اور حجاب وہ جو واقعی حجاب ہو۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات مستورات کو کہے گا کون ؟یعنی بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟وہ تو کوئی ایسا ہی عبد ہو سکتا ہے جو تمام پاکستانی خواتین کے دلوں پر راج کرتا ہو۔بوجھو تو جانیں ہم سب کو مانیں(ہمارے ہاں ایک رواج بھی تو ہے کہ یہاں یا تو فلموں ،ڈراموں میں کام کرنے والے یا پھر کھلاڑی عوام کے ہیرو یا آئیڈل وغیرہ ہوا کرتے ہیں)ویسے ایسا بندہ ہے تو سہی ۔جی ہاں ٹھیک سمجھے عمران خان۔اور یہ بات بہت سالوں سے دل میں تھی کہ جیسے عمران خان اسلام کی اور خوفِ خُدا کی بات کرتے ہیں یہ سیاست سے ہٹ کر بھی کبھی اپنی مداح مستورات سے بات کریں ۔
یہ رب کی رضا پانے کی بات کبھی اس انداز میں بھی کریں کہ پاکستانی مستورات بے مقصد گھروں سے نہ نکلیں جب نکلیں تو بڑھی سی چادر اوڑھ کر نکلا کریں۔جس طرح سے پاکستانی مستور نے عمران خان کو ہیرو بنائے رکھا ،اب تو محبتوں کے گانے بھی ریلیز ہونے لگے تو حق بنتا ہے عمران خان ان محبت کرنے والوں سے محبت کے جگہ اسی بات کا مطالبہ کریں ۔ خیر ہر کوئی اپنی سوچ میں آزاد ہے ۔میرا کیا ہے میرے تو دماغ میں 1992سے ہی ایسی عجیب و غریب خاہشات سر اٹھاتی رہتیں۔جبکہ میں ابھی خود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تب جب اپنی اطراف لڑکیوں کی ٹولیوں اور استانیوں تک کو کرکٹ کے کھلاڑی (عمران خان) سے دیوانہ وار پسندیدگی کا اظہار کرتے دیکھتی۔واقعی سب عجیب لگتا جب لڑکیاں اپنے والد بزرگوار کے نام کی جگہ بھی۔۔۔۔ اور یہ بات میرے جیسی بندی کے چودہ طبق روشن کرنے کو کافی ہوتی ۔اور اس پر عجیب یہ تھا کہ استانیاں بھی طلبہ کو سرزنش نہ کرتیں ۔ ایک ہی موضوع پر ایک لکھاری طویل گفتگو کرتا ہی تب ہے جب وہ موضوع واقعی حساس بن جائے ۔اور آج اس سے بڑھ کر کوئی حساس موضوع ہے ہی نہیں ۔موضوع کے ذکر پریاد آیا باتوں باتوں میں بات تو بہت دور نکل آئی۔اپنے باادب قاری سے معذرت چاہتے ہوئے ادھر ،ادھر کی باتوں کے دامن کو سمیٹتی ہوں ۔آج کے مضمون کے اصل موضوع کی طرف آتی ہوں جی توبات کرتے ہیں ،،فاصلہ گھٹائو ،،پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں فاصلوں کو طول دینے کا حکم نہیں ۔رشتوں کو جوڑنے کو حکم ہے۔قطعہ تعلقی مالک کو ناپسند ہے ۔خاص طور پر ہمیںمشکلات میں ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔غموں میں شرکت ضرور کرنی چاہئے ۔اگر خوشی میں کوئی بلائے تو دل میں حسد لیکر کبھی نہیں ملنا چاہئے اور سب سے بڑی بات جہاں سے بھی راہِ ہدایت کی بات ملے خوشی سے دل میں اتار لینی چاہئے ۔یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ کہہ کون رہا ہے ۔ہم اگر چاہتے ہیں ہمارا ملک امن کا گہوارہ ہو،تو ہمیں ایسی تربیت کا اہتمام کرنا ہو گا جس سے ایسی تعلیم عام ہو کہ ہماری عادت بن جائے ہم بات کہنے والے کے مطلب پر نظر رکھیں نا کہ مسلک پر ۔کچھ دن پہلے ایک عالمِ دین کا خطبہ سن رہی تھی۔
آپ کی ایک بات سے اب تک متفکر ہوں ۔وہ عالمِ دین احادیثِ مبارکہ سے ثابت کر رہے تھے کہ دلہن کے گھر بارات والے دن پکنے والا کھانا دلہے کے ذمے ہوتا ہے ۔جس میں سے دلہن والوں نے اور باراتیوں نے بھی کھانا ہوتا ہے ۔وہ بزرگ مزید فرما رہے تھے کہ ولیمے پر اسلام میں کوئی پابندی نہیں چاہے چھ ماہ کھانا پکا کر تقسیم کرتے رہو،ایک دن یا ہفتہ دس دن۔۔۔۔۔۔۔
وغیرہ وغیرہبرزگ نے کہا کہ میں خود جب تک اس حدیثِ پاک کے علم سے محروم تھا جاہلانہ زندگی گزاری مگر شکر ہے خُدا کا اب میں اس بات کی تبلیغ کرتا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں شادی بیاہ کی زیادہ تر رسومات ہندوانہ ہیں۔بزرگ اپنا تبلیغِ حق نبھاتے ہوئے اور بھی بہت کچھ بتارہے تھے۔مگر میری سوئی ادھر ہی اٹکی رہی کہ اسلام میں بارات کا کھانا دلہے کی ذمہ داری ہے اور ہمارے ہاں تو دلہا دلہن کے مالی حالات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اپنے ساتھ بارات میں تین سو ۔۔۔۔۔۔
باراتئے بھی لے کر جاتا ہے۔ التجا ہے خُدائے مُتعال پاک ہستیوں ؑ کے طفیل ہماری رہبری فرمائے ہر قدم ،ہر سانس ۔آمین