پروفیسر ڈاکٹر محمد یسین
ابھی اچھی طرح گرم موسم نے انگڑائی لی ہی نہیں، لیکن پاکستانی غریب عوام پر ابھی سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب مسلط کر دیا گیا ہے ۔ ہر گھنٹے کے ساتھ ایک گھنٹہ بجلی کی أنکھ مچولی کا کھیل شروع ہو چکا ہے ۔ دوسری طرف ہر ماہ بجلی کے بلوں کے ذریعے غریب عوام کو ٹیکسوں سے واسطہ پڑ رہا ہے ۔ حکومت کسی پارٹی کی بھی ہو اسے غریب عوام سے کیا سروکار ؟ وہ تو غریب عوام کا خون نچوڑنے پر تلی رہتی ہیں ۔ غریب مرتا ہے ، تو مرے انہیں کیا ! آئے روز کی مہنگائی اور بلوں نے عوام کو اپنا تن، من ، دھن بیچنے پر مجبور کر دیا ہے یا پھر حالات کے ستائے ہوئے لوگوں میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔ ہمارے قرب و جوار کے ممالک میں مہنگائی قدرے کم ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی پاکستان کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور اس کی آئے روز بڑھنے والی قیمتوں کی وجہ سے صنعت کار اپنی فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ، یہاں تک کہ کئی ایک صنعت کار بے انتہا مہنگائی اور آئے روز بجلی کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے اپناملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں کا رخ کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں ۔ کوئی بھی ایسا محب وطن شخص نہیں ہے ،جو خوشی سے اپنے ملک سے سرمایہ لے کر کسی دوسرے ملک میں لگائے اور اس ملک کو فائدہ پہنچائے ۔ ایسے اقدام مجبور ہو کر ہی اٹھائے جاتے ہیں ۔ ہمارے ملک کی اشرافیہ نے بھی اپنی دولت دوسرے ملکوں میں انویسٹ کی ہوئی ہے ، جب کہ ہم اپنے وطن کا دم بھی بھرتے ہیں اور اپنا سرمایہ دوسرے ملکوں میں لگا کر انہیں فائدہ بھی پہنچا رہے ہیں ، اگر یہی سرمایہ ہمارے اپنے ملک میں لگایا جائے تو ملک بھی ترقی کرے گا اور غریب عوام کو روزگار بھی میسر آئے گا اور ملک بھی خوشحالی کی راہوں پر گامزن ہو جائے گا اور غریب عوام اپنے بچوں کا پیٹ بھی پال سکیں گے ۔
سال ہا سال سے آئی ایم ایف پاکستان کو سود کے ساتھ قرضہ دے رہا ہے ، لیکن اس نے قرضہ لینے والوں سے آج تک نہیں پوچھا کہ ہم جو قرضہ دیتے ہیں اس کا حساب بھی دیا جائے کہ کہاں لگایا ہے ۔ اس قرضے سے آپ نے اپنے ملک اور غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کون کون سے منصوبے شروع کئے ، اگر آئی ایم ایف سختی کرتا اور ڈنکے کی چوٹ پر دئیے گئے قرض کا حساب کتاب مانگتا تو کب کا پاکستان خوشحالی کی پٹڑی پر چڑھ چکا ہوتا اور اس کا ثمر غریب عوام تک بھی پہنچ پاتا ۔ آئی ایم ایف تو یہی چاہتا ہے کہ پاکستان اور اس کی غریب عوام بنیادی سہولتوں سے محروم رہیں اور ہم پاکستان کی غریب عوام کو قرضے سے جکڑتے چلے جائیں , حالاں کہ یہ قرض آئی ایم ایف پاکستان اور اس کی غریب عوام کی زندگی بہتر بنانے کے لئے دیتا ہے جب کہ عوام اس قرض سے مستفید نہیں ہو پاتے۔ أئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان پر قرض پر قرض چڑھتا جا رہا ہے ، لیکن ہمارے سیاست دانوں کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ صرف غریب عوام ہی قرض کے اس بوجھ تلے دبتے جا رہے ہیں ۔ جب یہ غریب عوام نہیں رہیں گے ، تو پھر سیاست دان کس پر حکومت کریں گے اور ہر آنے والے الیکشن پر جو سبز باغ دکھاتے ہیں ، وہ کس کو دکھائیں گے ؟ اشرافیہ ہو ، سیاست دان ہوں یا بیوروکریسی ہو ، اب تو انہیں اپنے وطن اور غریب عوام کا خیال کر لینا جاہیے ۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں ۔ ہم کسی پر بھی الزام نہیں دھرتے ، لیکن جو قرض لیا جائے وہ اللوں تللوں میں نہ اڑایا جائے ، بل کہ اسے پاکستان کی ترویج و ترقی اور فلاح و بہبود پر خرچ کیا جانا چاہیے تاکہ ہمارا ملک بھی عالمی برادری کے برابر کھڑا ہو سکے ۔ ہر باشعور انسان یہ بات بہ خوبی جانتا ہے کہ ہر کسی کو اس عارضی دنیا سے خالی ہاتھ جانا ہے ۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ سکندر۔ اعظم نے دنیا کے بیش تر حصوں کو فتح کیا اور جب اس کا وقت قریب آیا تو اس نے کہا کہ جب میں مر جاؤں ، تو میرے دونوں ہاتھ کفن سے باہر نکال دیے جائیں ۔ اس کے اکابرین نے پوچھا کہ وہ کیوں ؟ تو اس نے کہا کہ دنیا کو پتا چلے کہ آدھی سے زیادہ دنیا فتح کرنے والا یہاں سے کچھ لے کر نہیں گیا ، بل کہ خالی ہاتھ گیا ہے ۔ اسی طرح جب ہم بھی اس عارضی دنیا کو چھوڑ کر جائیں گے ، تو ہم بھی اپنے ساتھ کچھ لے کر نہیں جائیں گے ،بل کہ خالی ہاتھ دفنائے جائیں گے۔
اللہ پاک کا قانون اٹل ہے ۔ وہ کبھی نہیں بدلتا ۔ وہ شائد اپنی رحمت سے اپنے حقوق معاف کر دے ، لیکن حقوق العباد کبھی معاف نہیں کرے گا ، جب تک متاثرہ شخص اسے معاف نہیں کر دیتا ، لہذا حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا خیال رکھنا بھی ہمارا فرض ہے۔ اگر آج ہم کسی کا مال ناجائز طریقے سے کھا جائیں گے یا کسی کا بلا وجہ خون کر دیں گے تو اس کا حساب ہمیں قیامت کے روز دینا پڑے گا۔ بہتر یہی ہے کہ آج سے ہم اپنا قبلہ درست کر لیں ، خواہ ہم کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں ۔ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر برسوں پر محیط دشمنیاں پال لیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ مخالف بھی ہماری طرح کا انسان ہے اور اس کے بھی کچھ حقوق اور جذبات ہیں ۔ اللہ پاک نے فرما دیا ہے کہ انسان خسارے میں ہے اور خطا کا پتلا بھی ہے ، لیکن پھر بھی جانتے بوجھتے ہوئے اس کے حقوق اور جذبات کا خون کرتے ہیں، جب کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے ، اگر کوئی غیر ارادی طور پر کسی سےالجھ پڑے تو دوسرے فریق کو چاہیے کہ سمجھا کر راہ راست پر لائے تاکہ حالات مزید بگڑنے سے بچ جائیں ۔
بات بجلی کی لوڈشیڈنگ سے شروع ہوئی تھی اور کہاں آ گئی ہے ۔ حکومت۔ وقت کو چاہیے کہ غریب عوام کو جینے کا حق دے اور روزمرہ ضروریات کی بنیادی اشیا کی قیمتوں میں کمی کرے ۔ بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتوں کو بھی نیچے لایا جائے ۔ اب رمضان شریف بھی شروع ہونے والا ہے ۔ ہمارے تاجر بھائی بھی چھریاں تیز کیے بیٹھے ہیں اور غریب عوام کی کھال اتارنے کی منصوبہ سازیاں کر رہے ہیں کہ کس طرح عوام کو لوٹنا ہے ۔ حکومت وقت کو اس طرف بھی خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہیے ۔ اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ اللہ پاک ہمارے پیارے پاکستان اور اس کی غریب عوام کی اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے حفاظت فرمائے ۔ آمین ۔