کچھی کینال سے ترقی کی دستک

کچھی کینال سے ترقی کی دستک

تحریر۔اخترمنگی انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نصیرآباد ڈویڑن
بلوچستان کئی جہاں قدرتی نعمتوں سے مالا مال ہے تو وہاں پر مخلوق خدا کو رزق کی فراہمی کے لیے صوبے کا چٹیل میدان بھی بلوچستان کی عوام کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں نصیر آباد ڈویڑن اور سبی ڈویڑن کے میدان اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے رزق کے موجب بنے ہوئے ہیں ان میدانی علاقوں میں اللہ تعالی کی نعمتیں پوشیدہ ہیں جنہیں یہاں کے مقامی کاشتکار میدانوں کے سینے چیر کر رزق کے حصول کو یقینی بناتے ہیں آج میں اپنی تحریرمیں بلوچستان کے ذرخیزی کے حوالے سے حکومتی اقدامات کو عیاں کرنا چاہتا ہوں بلوچستان کی تمام ڈویڑنز اللہ تعالیٰ کی مختلف نعتوں سے مالامال ہیں تو نصیرآباد ڈویڑن اور سبی ڈویڑن میدانی علاقوں سمیت دیگر کئی قدرتی نعمتوں سے مالا مال ہیں ان ڈویڑنز میں مختلف اقسام کے ذرعی اجناس کی پیداوار حاصل ہوتی ہیں جوکہ صوبے بھر کی عوام کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں نصیر آباد ڈویڑن بلوچستان کے ذرخیز ڈویڑن کے طور پر جانی جاتی ہے کیونکہ پٹ فیڈر کینال اور کیرتھر کینال کی وجہ سے اس ڈویڑن میں ذرعی انقلاب برپا ہواہے اس کے ساتھ ساتھ اگر بات کی جائے سبی ڈویڑن کی تو وہاں پر بھی کچھی کینال کی وجہ سے علاقہ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے کیونکہ کچھی کینال سے قبل یہاں کی زمینیں بنجر اور خشک سالی کا شکار بنی ہوئی تھی بلوچستان کی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے ہر دورحکمران نے غیر معمولی اقدامات کئے سال2002ء￿ میں بلوچستان کی عوام کیلئے ایک ایسے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا جس کی تکمیل کے بعد بلوچستان کی نصیرآباداور سبی ڈویڑنز ترقی اور خشک سالی کے خاتمے کے ساتھ ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں کھلیں گی میں آج میں کچھی کینال کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا چاہتاہوں کہ کچھی کینال کا منصوبہ متذکرہ بالا سال کو شروع ہوا یہ منصوبہ پانچ سو کلو میٹر طویل ہےکچھی کینال سے ترقی کی دستکجوکہ 300کلو میٹرپنجاب جبکہ 200سوکلومیٹر بلوچستان میں مکمل کیا جائے گا طویل جدوجہد کے بعدکچھی کینال کا فیز ون بالاخر بلوچستان کی حدود میں داخل ہو کر مکمل ہو گیا ایک اندازے کے مطابق کچھی کینال سے ڈیرہ بگٹی سوئی سمیت دیگر بلوچستان کی حدود میں گزشتہ سال ایک ارب سے زائد کی زرعی پیداوار بھی حاصل ہوئی کچھی کینال 6500 کیوسک پانی کی گنجائش موجود ہے اور زرعی ماہرین کے مطابق ڈیرہ بگٹی سوئی سمیت دیگر ملحقہ علاقوں کی کچھی کینال فیز ون سے 57 ہزار ایکڑ اراضی سیراب ہوتی ہے مگر گزشتہ سال 2022 کہ تباہ کن بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے کچھی کینال کے فیز ون کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اس سے نہ صرف جانی اور مالی نقصان ہوا بلکہ بلوچستان کی اراضی جو کہ کچھی کینال کے پانی سے سیرا ب کی جا رہی تھی وہ بھی بری طرح متاثر ہوئی جس کی وجہ سے کاشتکاروں اور کسانوں کو شدید کٹھن حالات سے نبرد ازما ہونا پڑا ان حالات کو مدنظر رکھ کر وزیراعلیٰ بلوچستان میرسرفرازخان بگٹی کی قیادت میں صوبائی حکومت نے کچھی کینال کے ان سیلاب متاثرہ جگہوں کی تعمیرومرمت کے لیے وفاقی حکومت سے قریبی روابط رکھا تاکہ واپڈا کے ذریعے کچھی کینال کے متاثرہ حصوں کو جلد از جلد بحال کیا جا سکے۔ کچھی کینال میں ہونے والے نقصانات سے نہ صرف کینال متاثر ہوئی اس کے نقصانات سے ضلع صحبت پور ضلع نصیر آباد ضلع جعفرآباد اور استامحمد کے علاقے بھی سیلابی ریلوں سے نہ بچ سکے ان تمام امور کو مدنظر رکھ کر وزیراعلی بلوچستان میر سرفراز خان صوبائی وزیر ایریگیشن میر محمد صادق عمرانی نے عملی طور پر اقدامات کیے اور وفاقی حکومت سے روابط کے ذریعے کچھی کینال کے تمام شگافوں کو عارضی بنیاد پر 45 روز کے اندر بند کر کے بلوچستان کے کاشتکاروں کے مسائل کا تدارک کیا یہ ان متاثرہ علاقوں اور زیر کاشت رقبے کے کاشتکاروں کے لئے کسی نوید سے کم نہیں تھا کیونکہ جو ترقی اور خوشحالی کا سفر شروع ہوکر تھم گیا تھا وہ ترقی کا عمل ایک مرتبہ پھر شروع ہوگیامیں اس بات کو بھی عیاں کرنا سمجھتا ہوں کہ صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے بلوچستان کے واسیوں کی جائز شکایات بھی تدارک کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنا بھی خوش آئند اقدام ہیں اور بلوچستان کے واسیوں کے دکھوں کا مداواہ کرنے کیلئے بہترین اقدام ہے جسے یہاں کی عوام سرہاتی ہے کیونکہ اگر اس جانب توجہ نہ دی جاتی تو یہاں کے کاشتکاروں کو مزید کافی عرصے تک مشکلات سے دوچار ہونا پڑتابلوچستان صوبائی حکومت عوام کے لیے جس قدر گراں خدمات سرانجام دے رہی ہے وہ قابل ستائش ہیں محکمہ ایریگیشن کی واپڈا کے ساتھ متاثرہ جگہوں کی مرمت کے بعد قوی امید ہے کہ کچھی کینال کے فیز ون سے ڈیرہ بگٹی سوئی سمیت دیگر ملحقہ علاقوں میں گندم کی بوائی کا عمل بھی شروع ہو جائے گا اس کے ساتھ ساتھ دیگر زرعی اجناس کی پیداوار کا حصول بھی متوقع ہے اس عمل سے نہ صرف ان علاقوں میں بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہوگا بلکہ ذرعی پیداوار حاصل ہونے سے یہاں کے باسی ذرعی اجناس میں خود کفیل ہو نے کے ساتھ ساتھ صوبے اور ملک کی خوراک کی ضروریات میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے اور یہاں کی ذرعی پیداوار حاصل ہونے کے بعد انہیں ملک کے دیگر حصوں تک بھی رسائی آسان ہو جائے گی کچھی کینال کے فیز ون ڈیرہ بگٹی سے مکمل ہونے کے بعدضلع نصیرآباد میں بھی ایک کلومیٹر اندرون تک داخل ہو کر مکمل ہوگئی ہے جس کا افتتاح گزشتہ روز وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف ، وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز خان بگٹی، وزیراعلیٰ پنچاب مریم نواز، نے صوبائی وزیر آبپاشی میر محمد صادق عمرانی ، وفاقی دیگر صوبائی وزرا کے ہمراہ کیا بلوچستان میں نہری نظام میں مزید بہتری لانے اور کاشتکاروں کے مسائل حل کرنے کے لیے حکومت جو سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کر رہی ہے اس کے ثمرات زرعی پیداوار میں اضافے کی صورت میں سامنے آرہے ہیں بلوچستان میں مختلف زرعی اجناس پیداوار میں خود کفیل ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حکومتی اقدامات سے ذراعت مزید مستحکم ہو رہی ہے اور کینال سسٹم کے ذریعے متعلقہ علاقوں کا کمانڈ ایریاکے چپا چپا پیداوار کی فراہمی کا سبب بنا ہوا ہے بلوچستان حکومت کے یہ تمام اقدامات عوام دوست پالیسیوں کاواضح مظہر ہے کیونکہ حکومت بلوچستان نے جس قدر مقامی کاشتکاروں کے لیے اقدامات کیے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز خان بگٹی نے اپنے دور اقتدار سنبھالنے کے بعد اس چیز کا عزم کیا کہ بلوچستان کے واسیوں کو ان کے جائز حقوق کی فراہمی کسانوں اور کاشتکاروں کو معاشی لحاظ سے مستحکم بنانے صوبے سے جہالت کے خاتمے اور لوگوں کو ان کی دہلیز پر طبی سہولیات کی فراہمی ان کے منشور کا حصہ رہا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے تمام اقدامات کو عملی جامعہ پہنانے کیلئے صوبائی وزیر آبپاشی میرمحمد صادق عمرانی عمل پیرا ہیں نصیرآباد ڈویڑن کے ذرخیر علاقوں کی بہتری کیلئے غیر معمولی اقدامات کئے جارہے ہیں ذرعی پانی کی بروقت فراہمی اور کاشتکاروں کے مسائل حل کرنے سے سود مند ثمرات سامنے آرہے ہیں کیونکہ بروقت ذرعی پانی کی فراہمی انتہائی اہمیت کی حامل کا عمل ہے جس پر صوبائی وزیرآبپاشی میر محمد صادق عمرانی ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں جوکہ خوش آئند اقدام ہے اگر بات کی جائے کچھی کینال فیز ون سے نصیر آباد کو 500 کیوسک پانی کی فراہمی بھی جاری ہے جو کہ ربیع کینال کے ذریعے نصیر آباد کے کاشتکاروں کو فراہم کیا جا رہا ہے مگر بلوچستان کے ایریگیشن حکام کی جانب سے یہی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ کچھی کینال سے فی الحال ایک ہزار کیو سک پانی فراہم کیا جائے کیونکہ جب تک فیز ٹو اور فیز تھری کا کام شروع ہوکر مکمل نہیں ہوجاتا تب تک کچھی کینال سے نصیرآباد کو پانی فراہم کیا جائے تاکہ یہاں کے مقامی کاشتکار اللہ کی اس نعمت سے مستفید ہو اور پٹ فیڈر کینال کی بندش کے وقت کچھی کینال کے پانی کو آبنوشی سمیت زرعی مقاصد کے لیے اس پانی کو استعمال کیا جائے میں یہ بھی ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہم مضبوط پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں بلوچستان ملک کے دیگر صوبوں سے پیچھے رہ گیا ہے لیکن وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز خان بگٹی کی کاوشوں سے یہ آگے بڑھے گا۔ کچھی کینال منصوبہ 2002سے جاری ہے لیکن اب تک مکمل نہیں ہوا صوبے کو لائن کینال کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ صوبائی حکومت اسے بار بار مرمت کرنے کی سکت نہیں رکھتی لہذا 100کلومیٹر کے اگلے فیز کو لائنڈ نہ کیا جائے اور یہ منصوبہ شہباز شریف اسپیڈ سے کم ہی عرصے میں بن سکتا ہے وزیراعظم سے گزارش ہے کہ بلوچستان کا اگلا 100کلومیٹر کا حصہ جلد سے جلد مکمل کیا جائے۔اس حوالے سے واپڈا کی ٹیموں نے ضلع نصیرآباد کا بھی رخ کیا تھا کیونکہ حکومت فیز ٹوکے تعمیراتی عمل کو جلد ازجلد شروع کروانے کی خواہش رکھتی ہے گزشتہ دنوں ٹیم نے ڈپٹی کمشنر نصیرآباد منیراحمد خان کاکڑ سے ملاقات کی اور تمام درپیش مسائل اور اقدامات کے حوالے سے انہیں آگاہی فراہم کی کمشنر نصیرآباد ڈویڑن معین الرحمان خان کی جانب سے بھی فیز ٹوکے تعمیراتی عمل کو شروع کروانے کیلئے ضلعی انتظامیہ کو احکامات دیئے گئے ہیں کہ جلد ازجلد سروے کا عمل مکمل کروانے میں ضلعی انتظامیہ موثر اندازمیں واپڈا کی ٹیموں کے ساتھ اپنے تعاون کو یقینی بنائے اسی حوالے سے کمشنر نصیر آباد ڈویڑن معین الرحمن خان نے بھی کچھی کینال والے علاقوں کا دورہ کیا جہاں سے متوقعہ طور پرکچھی کینال کی گزر ہوگی ذرعی ماہرین کے اندازے کے مطابق کچھی کینال کے فیز ٹو اور فیز تھری کی تکمل کے بعد اس منصوبے سے 7سے 8لاکھ ایکڑ زمین سیرآب ہوگی مگر قوی امید ہے کہ اس اندازے سے بھی کہیں ذیادہ پیداوار حاصل ہوگی مگراس وقت اس زمین پر آج پرندوں کے پاس پینے کا پانی تک نہیں ہے منصوبے کی تکمیل سے معاشرے کا فائد ہ ہوگا۔اس حوالے سے یہ بات بھی عیاں ہونا انتہائی ضروری ہے کہ مستقبل میں نصیرآبادڈویڑن اور سبی ڈویڑن کے علاقوں سمیت کچھی کینال کو سیلابی ریلوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ایک ایسی بہتر حکمت عملی کے تحت کام کیا جائے جس سے آنے والے متوقعہ سیلابی صورتحال اور خطرات کے پیش نظر کچھی کینال اور دیگر علاقوں کو نقصان نہ پہنچے اس حوالے سے ماہرین کو اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ایسی بہتر حکمت عملی مرتب دی جائے جس سے کوہ سلیمان سمیت پنجاب کے علاقوں سے آنے والے سیلابی ریلوں کو نقصانات کی بجائے ان سیلابی ریلوں سے فوائد حاصل کیے جائیں یہ عمل نہ صرف یہاں کے مقامی آبادی کے لیے سود مند ہوگا بلکہ اس عمل سے سیلابی صورتحال کے خطرات بھی ٹل جائیں گے اور ہزاروں کیوسک پانی بھی ضائع ہونے کے بجائے کاشتکاری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے گا زرعی ماہرین اور محکمہ ایریگیشن کے انجینیئرز پر لازم ہے کہ وہ کاشتکار وں اور کسانوں کو اس جانب راغب کریں جہاں کم سے کم پانی سے بہتر فصلات حاصل کی جا سکتی ہیں اس حوالے سے کاشتکاروں پر بھی لازم ہے کہ وہ زرعی پانی کے بے دریغ استعمال اور اس کے ضیاع کو روکنے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں تاکہ یہ عمل صوبے اور ملک کے لیے سود مند ثابت ہو سکے۔
اخترمنگی آرٹیکل رائیٹر محکمہ انفارمیشن نصیرآباد ڈویڑن۔

اپنا تبصرہ لکھیں