انسان بہرحال ایک ایسی مخلوق ہے جو فطرت کا بار لیکر اس دنیا میں بھیجی گئی ہے ۔وہ فطری تقاضوں کے مطابق زندگی گذارنے پر مجبور ہے ۔فطری تقاضوں کے منفی ومثبت پہلو اسے ہر لمحہ رسہ کشی میں مبتلا کئے ہوئے ہیں ۔اگرچہ فطرت کے جائز تقاضوں کے برخلاف کام کرنے والے لوگوں کی انسانی تاریخ میں اکثریت رہی ہے لیکن ان تقاضوں کا یکسر انکار کرنے کی جرات وہ بھی نہ کر سکے ہیں اور نہ ہی کر سکتے ہیں ۔کیونکہ فطرت کے وار ایسے زور دار ہیں کہ انسان ہر جھٹکے کے بعد یہ محسوس کرتا ہے کہ میں انسان ہوں ۔ہر برا عمل انجام دینے کے بعد انسان شرمسار ہوتا ہے ،ہر غلط بات بتانے کے بعد پچھتاتا ہے اور ہر بدنگاہی کے بعد پریشان رہتا ہے ہر حادثے کے بعد وہ حق اور ناحق کے متعلق سوچتا ہے ۔گویا فطرت سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود وہ فطرت کے پنجے تلے دبا رہتا ہے ۔گویا ہر ناجائز تقاضے کی تکمیل جائز تقاضے کی طرف انسان کا رخ متعین کرتی ہے۔وہ سوالِ دیگراں ہے کہ نفس کی اکساہٹ اسے کس حد تک جانے دیتی ہے۔
چونکہ ہر برا کام غیر فطری ہوتا ہے اس لئے ہر برے کام کے ارتکاب اور تکرار کے نتیجے میں انسان ایک ذہنی بیماری کا شکار ہوتا ہے۔جس کے زیرِ اثر وہ مزید برائیوں کا ارتکاب کرتا ہے ۔برائیوں کے مزید ارتکاب سے اس کی زندگی اس دنیا ہی میں جہنم بن جاتی ہے ۔بظاہر وہ لوگ ہمیں کتنے ہی خوشحال نظر آتے ہوں لیکن باطنی طور وہ دوزخ کا ایک حصہ بن چکے ہوتے ہیں ۔ان کی روح مسلسل ایک اضطراب میں پھنسی ہوتی ہے ۔وہ سکون کے ایک لمحے کے لئے تڑپتے ہیں اور لاکھوں ڈالر کے عوض اس کو خریدنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی ہر کوشش سعی لاحاصل ہوتی ہے۔نورانی روح اس جہنم سے آزادی کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے ۔لیکن نفس کے غلبے سے اس کی آزادی دشوار رہتی ہے تاآنکہ نفس کو ہی زیر کر لیا جائے،نفس کا تزکیہ کیا جائے اور نفس کو پاک و صاف رکھنے کی مشقت کی جائے۔
انسانی فطرت کی کامیابی صرف خیر کے کاموں میں ہے لیکن نفس ،شیطان اور ماحول کی آلودگی اس کے ہر مطالبے کو غلط رخ پر ڈال کر اس کی ناکامی کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔انسانی فطرت پر دور جدید میں سب سے زیادہ ظلم مغرب میں ہوا ہے ۔جہاں انسان کی بے لگام آزادی وحریت کو اتنا اعلی ٰمقصد تسلیم کیا گیا کہ انسان کی اردگرد کی ہر اخلاقی و معاشرتی پابندی کو مسمار کر کے انسان کو شترِ بے مہار بنا کر جانوروں کی صف میں لا کر کھڑا کیا گیا ہے ۔مغرب نے نفس کی ہر ادنیٰ و اعلی ٰ خواہش کی تکمیل کے لئے اپنی ہر صلاحیت حتی کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی قوت کو بھی استعمال کیا اور نفس کی بندگی کا وہ حق ادا کیا کہ شاید تاریخ میں کسی ہی نافرمان قوم نے ایسا کیا ہو۔چند ایک مثالوں کے پیش کرنے سے یہ بات بآسانی ذہن نشیں کرائی جا سکتی ہے ۔شہوت کے ناجائز مطالبات کی تکمیل کے لئے انہوں نے زنا کو قانونی طور جائز قرار دیا اور مرد و زن کے ہر قسم کے اختلاط کو انہوں نے اپنی جدید ئیت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ۔انہوں نے عورت سے شہوانی طور لطف اندوز ہونے کے لئے اسے صنف نازک کا نام دے کر ہر محفل کاتاج قرار دیا ۔گلی کوچوں سے لیکر ایوان تک ہر جگہ عورت کی معیت کو اس نے ترقی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔مغرب نے عورت کی آزادی پر عورت کی اتنی حوصلہ افزائی فرمائی کہ عورت بھی اپنی نسوانیت بھول کر مرد کی برابری میں بیٹھ کر خود کو معزز اور کامیاب متصور کرنے لگی ۔حالانکہ اس کے ذریعے عورت سے بآسانی لطف اندوز ہونی کی ہر لمحہ مرد کو مواقع میسر رہنے لگےاور عورت کی نسوانیت اور حیا کو اس نے خاک میں ملا کر دم لیاجو عورت کا اصل زیور تھا۔اس غیر فطری آزاد معاشرے کو تشکیل دینے کے بعد پھر بھی مغرب نے راحت کا سانس نہیں لیا بلکہ مردوں کو شہوت کی تسکین کے لئے انہوں نے ایک ایسے بھیانک غیر فطری پروجیکٹ کا آغاز کیا کہ اب عورت کی جگہ جنسی گڑیوں Sex dollsنے لی ہے۔جن تک رسائی ہر وقت ممکن رہے گی جس کے نتیجے میں انسان جس درندگی کی انتہا کو چھو لے گا اس کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے خاندانی نظام پہلے ہی سےبگڑا ہے لیکن اب نسلِ انسانی vulnerable اور endangered species کا درجہ پائے گی۔جنسی آزادی کی اس تحریک سے مغرب میں روح کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا مغرب کو احساس تو ہے لیکن انہوں نے اس کا علاج Robotic femalesکے ذریعےکرنا چاہا جو مزید انسانی روح پر ظلم کی شدت میں اضافہ کر رہا ہے ۔مغرب کے اس غیر فطری اور غیر اخلاقی اقدام نے مغرب میں اخلاقی مبادیات کے بچے کھچے نشانات تک کو مٹا دیا ہے ۔مغرب ان جیسی اصلاحات کے نتیجے میں مکمل طور پر شیطان کی پیروی کر رہا ہے ۔دنیا کا کوئی بھی عقل مند ان غیراخلاقی چاپلوسیوں کو شیطانیت اور ابلیسیت کے علاوہ اور کیا نام تجویز کرسکتا ہے!
مغرب نے سفلی جذبات کی نمائندگی کے لئے Human dogs کا روپ دھارا ہے ۔یورپ میں دس ہزار سے زائد لوگوں کا گروہ وجود میں آیا ہےجو اپنی ہر ادا سے یہاں تک کی شکل و صورت میں بھی کتوں کی نقالی کر رہے ہیں ۔لوگ انہیں اپنے گھروں میں پالتوں کتوں کی طرح رکھ رہے ہیں ۔مغرب نے ہر وہ شیطانی سوچ اپنائی جو سفلی جذبات کے زیر اثر سوچی جا سکتی تھی ۔مغرب میں Eco sexuality کے نام پر قدرتی مناظر کی خوبصورتی کو بھی اپنی شہوانی پیاس بجھانے کے لئے استعمال کررہا ہے ۔ان جیسے غیر فطری اقدامات کی وجہ سے مغرب کا ہرعام و خاص روحانی سکون کی بازیافت کے لئے سرِگرداں نظرتو آتا ہے لیکن وہ اپنی بے حیا تہذیب کے شکنجے میں اس طرح سے کسے ہوئے ہیں کہ نکلنے کا کوئی در انہیں خود سے نظر نہیں آتا ۔وہ اس روحانی بحران Spritual disaster کا مقابلہ کرنے کے لئے عیسائیت سے امداد لینا چاہتا ہے لیکن عیسائیت چونکہ خود روحانیت کے اصلی و حقیقی نور سے خالی ہے اس لئے وہ مغرب کی مجروح روح کی مرمت کرنے کے قابل ہر گز نہیں ہے ۔مغربی دنیا اپنی اس بے چین روح کو اطمینان فراہم کرنے کے لئے کچھ جزوی خیر کے کام کرتے ہیں لیکن ان افعال کے پیچھے ایمان جیسی عنصر کی عدم موجودگی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی۔اس لئے مغرب میں اب Desecularisation کا رجحان پیدا ہو رہا ہے ۔جس کے نتیجے میں مغرب کا ذہین طبقہ مذہب کی اہمیت کو مغربی معاشرے میں پیدا کرنے پر کام کررہا ہے ۔لیکن مذہب کی صحیح اور حقیقی شکل کے بغیر مغرب مسلسل ان مسائل سے دوچار رہے گا جنہوں نے اس کی ناک میں دم کر رکھا ہے ۔کیونکہ وہ مذاہب جن کے متبعین مغرب میں دعوت کر رہے ہیں وہ ان جیسے ہزارہا مسائل سے داخلی طور دوچار ہیں کہ جنہیں مغرب اپنا اصل Issues قرار دے چکا ہے ۔اس پوری صورتحال میں مسلمانوں کے لئے ذریں موقع ہے کہ وہ مغرب کے سامنے اسلام کا مقدمہ بڑی ہی ہنر مندی کے ساتھ پیش کریں ۔کیونکہ اسلام انسان کے نفس پر قا بو پانے کا مکمل سامان فراہم کرتا ہے جبکہ یہی نفس ہے جس نے مغرب کے اخلاقی نظام کو نہایت بری طرح سے کھوکھلا کیا ہے اور مغرب کو نہایت ہی حقیر لذتوں کا غلام بنا کر اس کے اندر سے اخلاقی تشخص کو دفن کر دیا ہے ۔
مغرب میں اگر چہ انسان نے مادی ترقی کے بڑےاعلیٰ منازل طے کئے ہیں لیکن اس ساری ترقی کا فائدہ اس نادیدہ نفس کو ہورہا ہےجو انسان کے وجود کے اندر سفلی خواہشات وجذبات کا اصلی مرکز ومحور ہے ۔ان کی ہر مادی حرکت نفس کی خدمت میں مصروف ہے اور اس طرح سےمسلسل اپنےنفس کو رذائل اور خبائث سے آلودہ کر رہاہے ۔یا دوسرے الفاظ میں ترقی کا ہر زینہ مغرب نے نٖفس کی خدمت کے لئے وقف کیا ہےاور روح کو یکسر نظر انداز کر کے روحانیت کے بدلے مادیت کےعلمبردار بنابیٹھا ہے ۔
مغرب سے مرعوب ہونے والے مرعوبین یہ بات ماننے کے لئے تیا رہی نہیں ہوتے کہ مغرب میں روح شدید ظلم کا شکار ہے ۔کیونکہ وہ حضرات ان کی ترقی سے اس قدر متاثر ہیں کہ وہ ان کی اس پوزیشن کو رضائے الہی کی دلیل قرار دیتے ہیں ۔حالانکہ جس اخلاقی جذام میں مغرب ،بتلا ہے اس کی عفونت پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔