ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
ایک خطرناک خبر سامنے آئی ہے کہ سیاسی انتشار کو قابو کرنے کے لیے خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگایا جائے گا جوکہ ایک تشویش ناک صورت حال ہے۔ حالیہ دنوں میں خیبرپختونخواہ میں گورنر راج نافذ کرنے کے امکانات پر وفاقی حکومت کی مشاورت اور کابینہ کے اجلاس میں ہونے والے مباحثوں نے سیاسی منظرنامے میں ہلچل مچا دی ہے۔ اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے سیاسی، آئینی اور سماجی پہلوؤں کا تجزیہ ضروری ہے۔
خیبرپختونخواہ میں موجودہ بحران کی جڑیں حالیہ سیاسی تناؤ اور حکومتِ وقت کے خلاف تحریک انصاف کے احتجاج سے سامنے آئی ہیں۔وفاقی حکومت کے مطابق ان مظاہروں کے دوران مبینہ طور پر صوبائی وسائل کا استعمال کیا گیا، دھرنے کی سرکاری سطح پر حمایت کی گئی اور پولیس و سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ وفاقی وزراء اور ماہرین نے الزام عائد کیا ہے کہ تحریک انصاف کے مظاہروں میں غیر ملکی شدت پسند عناصر بھی شامل تھے جو امن و امان کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔
آئین پاکستان کے تحت گورنر راج کا نفاذ ایک غیر معمولی اقدام ہے جو صرف تب ہی ممکن ہے جب کوئی صوبائی حکومت آئینی حدود سے تجاوز کرے یا ریاست کی سالمیت و امن و امان کو شدید خطرہ لاحق ہو تو وفاقی حکومت کے پاس آرٹیکل 232 اور 234 کے تحت گورنر راج لگانے کا اختیار موجود ہے لیکن یہ اقدام سیاسی طور پر حساس اور قانونی پیچیدگیوں کا حامل ہوتا ہے۔
وفاقی کابینہ کی جانب سے پیش کی جانے والی وجوہات میں صوبائی حکومت پر دھرنوں کے لیے وسائل کے استعمال اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کو جواز بنایا گیا ہے۔ بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ صوبے کے اعلیٰ حکام نے وفاق کے خلاف محاذ آرائی کی جس سے انتظامی معاملات متاثر ہوئے۔ حکومت کے مطابق یہ اقدامات گورنر راج کے نفاذ کے لیے کافی جواز فراہم کرتے ہیں۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کے تاجروں نے بھی خیبرپختونخواہ میں گورنر راج کے نفاذ کی حمایت کی ہے۔ ان کے مطابق مظاہروں اور حکومتی اقدامات کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں شدید متاثر ہوئیں جس سے معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔
گورنر راج کا نفاذ ایک جمہوری نظام میں ایک انتہائی اقدام سمجھا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف عوامی نمائندگی کو معطل کرتا ہے بلکہ سیاسی عدم استحکام کو بھی جنم دے سکتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں اور خصوصاً تحریک انصاف کی جانب سے اس اقدام کو شدید تنقید کا سامنا ہوگا، جو سیاسی تناؤ کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ دوسری طرف، اگر حکومت گورنر راج کے ذریعے امن و امان کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ اس کی سیاسی ساکھ کو مضبوط کر سکتا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے گورنر راج کے لیے پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اس معاملے میں وسیع تر حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی کا مؤقف اس معاملے میں اہم ہوگا کیونکہ وہ ایک اہم سیاسی اتحادی جماعت ہے اور اس کے ردعمل سے گورنر راج کے فیصلے پر اثر پڑ سکتا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کے ممکنہ نتائج مندرجہ ذیل ہوسکتے ہیں:
اگر گورنر راج کے ذریعے امن و امان بحال ہو جائے تو یہ عوامی اعتماد کی بحالی میں مددگار ہو سکتا ہے۔
تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اس اقدام کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے سکتی ہیں جس سے احتجاج مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔
یہ اقدام جمہوری روایات کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور ایک خطرناک نظیر قائم کر سکتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ خیبرپختونخواہ میں گورنر راج کا امکان ایک غیر معمولی سیاسی و آئینی معاملہ ہے۔ اگرچہ اس کے نفاذ کے لیے قانونی اور آئینی جواز موجود ہیں، لیکن اس کے سماجی، سیاسی اور جمہوری اثرات کو مدنظر رکھنا بھی اشد ضروری ہے۔ وفاقی حکومت کو اس فیصلے میں توازن اور دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ نہ صرف امن و امان بحال ہو بلکہ جمہوری اقدار بھی متاثر نہ ہوں۔