پشتون قومی تحریک اور خان شہید: ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی کہانی

پشتون قومی تحریک اور خان شہید: ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی کہانی

نیازبین ملنگ پشتون قومی تحریک اور خان شہید: ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی کہانی
عبدالصمد خان اچکزئی، جنہیں خان شہید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی پشتونوں کی آزادی، خودمختاری اور بنیادی حقوق کی جدوجہد کے لیے وقف کر دی تھی۔ 1907 میں برٹش بلوچستان کے علاقے قلعہ عبداللہ، عنایت اللہ کاریز میں پیدا ہونے والے خان شہید نے بچپن سے ہی معاشرے میں سیاسی غلامی ناانصافیوں اور جبر کو قریب سے دیکھا، جو ان کی سیاسی فکر اور عملی جدوجہد کا محرک بنیں۔ وہ نہ صرف برطانوی سامراج کے خلاف صف آرا رہے بلکہ آزادی کے بعد کی ریاست پاکستان میں بھی پشتونوں اور دیگر مظلوم اقوام کے حقوق کے لیے ایک مضبوط آواز بن کر ابھرے۔ خان شہید نے اپنے سیاسی جدوجہد کے زریعے ایک منظم سیاسی بیانیہ پشتون کوئسچن تشکیل دیا جو کے پشتون قومی تحریک کیلئے مشعل راہ ہیں۔ ان کی جدوجہد ہمیں اس بات کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ ریاستی طاقت کس طرح مظلوم اقوام کو دباتی ہے اور اس کے خلاف مزاحمت کیونکر ضروری ہے۔
برطانوی دورِ حکومت میں نافذ کیے گئے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) جیسے قوانین پشتونوں کے لیے شدید جبر کا باعث بنے۔ ایف سی آر کے تحت پورے قبیلے کو ایک فرد کے جرم کی سزا دی جاتی تھی،۔
ایڈورڈ سعید کے مطابق، سامراجی طاقتیں مقامی اقوام کو‘‘غیر مہذب’’،‘‘پسماندہ’’اور‘‘خطرناک’’کے طور پر پیش کرکے ان پر اپنی حاکمیت کو جائز ٹھہراتی ہیں۔ یہ نظریہ اورینٹلزم سامراجی بیانیے کا بنیادی حصہ ہے، جو محکوم اقوام کی ثقافتی اور انسانی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ خان شہید کی جدوجہد ان سامراجی بیانیوں کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت تھی۔ برطانوی سامراج نے پشتونوں کو‘‘جنگجو’’اور‘‘غیر مہذب’’کے طور پر پیش کرکے نہ صرف ان کے سیاسی حقوق کو غصب کیا بلکہ ایف سی آر جیسے قوانین کے ذریعے انہیں قانونی اور سماجی حیثیت سے بھی محروم رکھا۔ یہ قوانین پشتونوں کو ایک‘‘پریفرل زون’’کے طور پر دیکھتے تھے، جہاں انصاف اور حقوق کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ خان شہید نے ان بیانیوں کو چیلنج کرتے ہوئے پشتونوں کو ان کے حقوق، وقار، اور شناخت کی بحالی کے لیے متحد کیا۔ فرانز فینن کے نظریات کے ذریعے بھی خان شہید کی جدوجہد کا گہرا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ فینن کے مطابق، سامراجی نظام نہ صرف سیاسی اور معاشی طور پر بلکہ ثقافتی اور نفسیاتی طور پر بھی محکوم اقوام کو تباہ کرتا ہے۔ سامراج ان کے تشخص کو کمزور کرتا ہے اور انہیں‘‘غیر انسانی’’اور‘‘پسماندہ’’کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ایف سی آر جیسے قوانین کے ذریعے پشتونوں کو قانونی اور سماجی حیثیت سے محروم کرنا یہ بتاتا ہے کہ استعماری طاقتیں کس طرح تشدد اور جبر کے ذریعے مقامی اقوام کو قابو میں رکھتی ہیں۔
خان شہید نے ان استعماری ڈھانچوں کو توڑنے کے لیے 1938 میں انجمن وطن کی بنیاد رکھی، جو پشتونوں کی پہلی سیاسی جماعت تھی۔ ان کی جدوجہد محض سیاسی آزادی تک محدود نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد پشتونوں کی ثقافتی شناخت کو بحال کرنا، ان کی تعلیمی ترقی کو فروغ دینا، اور جمہوریت اور انصاف کے اصولوں کو معاشرتی ڈھانچے میں شامل کرنا تھا۔ خان شہید کی تحریک نہ صرف سامراج کے خلاف ایک انقلابی قدم تھی بلکہ پشتون قوم کے لیے ایک نفسیاتی اور سماجی بحالی کا ذریعہ بھی تھی۔
پاکستان کے قیام کے بعد 1947 میں خان شہید کو امید تھی کہ نوآبادیاتی جبر سے نجات ملے گی، لیکن جلد ہی انہوں نے محسوس کیا کہ نئی ریاست نے بہت سے سامراجی ڈھانچے کو ایک نئے روپ میں برقرار رکھا ہے۔ ان کے سیاسی خیالات کو کوامی نکرومہ کے نوآبادیاتی تسلسل (neo-colonialism) کے نظریے کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے، جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح نوآزاد ریاستیں اپنی خودمختاری کے باوجود سامراجی نظام کی باقیات کو برقرار رکھتی ہیں۔ پاکستان نے سینٹرالائزڈ، عسکری,بیوروکریٹیک اور اشرافیہ پر مبنی نظام اپنایا جو مقامی اور علاقائی شناختوں، بالخصوص پشتونوں کو نظرانداز کرنے اور ان کے حقوق کو محدود کرنے کا سبب بنا۔
خان شہید کی مزاحمت کو مشیل فوکو کے نظریہ حکمرانی (governmentality) سے بھی جوڑا جا سکتا ہے، جو ریاست کی اس حکمت عملی کو بیان کرتا ہے جس کے ذریعے نہ صرف طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے بلکہ لوگوں کے رویوں، شناختوں اور ثقافتی اظہار کو بھی قابو میں لایا جاتا ہے۔ پشتون زبان، ثقافتی حقوق اور خودمختاری کو دبانے کی کوشش فوکو کے بایوپولیٹکس کے نظریے کی عکاسی کرتی ہے، جہاں طاقتور اداروں جیسے فوج، تعلیمی نصاب، اور سرکاری میڈیا کے ذریعے شناختوں کو قابو میں رکھنے اور انہیں نئے شناخت میں ضم کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
خان شہید کی جدوجہد صرف سیاسی جبر کے خلاف نہیں تھی بلکہ ریاست کے ان اقدامات کے خلاف بھی تھی جو پشتون قوم کی ثقافتی اور سیاسی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی تحریک ایک ایسے نظام کے خلاف بغاوت کی علامت تھی جو طاقت کے ذریعے مقامی اقوام کی آزادی اور شناخت کو ختم کرنے کا خواہاں تھا۔
خان شہید کی ون یونٹ اسکیم کے خلاف شدید مخالفت ان کے فیڈرلزم پر اٹل یقین کا ثبوت ہے۔ 1955 میں متعارف کروائی گئی اس اسکیم کے تحت مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو ایک واحد انتظامی اکائی میں ضم کر دیا گیا، جس کا مقصد بظاہر قومی وحدت تھا، لیکن درحقیقت یہ علاقائی شناختوں کو مٹانے کی ایک آمرانہ کوشش تھی۔ خان شہید کے نزدیک یہ اسکیم پاکستان کی مختلف ثقافتوں اور قوموں کی پہچان کو ختم کرنے کا ایک منصوبہ تھا۔ ماہرین جیسے کے سی وئیر کا کہنا ہے کہ وفاقی نظام اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب وہ فیڈلرزم کے اصولوں اور علاقائی خودمختاری کے احترام پر مبنی ہو، اور ون یونٹ اسکیم نے ان بنیادی اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔ خان شہید کا پاکستان کے لیے متبادل نظریہ ایک جمہوری وفاقی نظام پر مبنی تھا، جہاں صوبوں کو تعلیم، صحت اور قدرتی وسائل جیسے اہم شعبوں پر مکمل اختیار حاصل ہو، جبکہ دفاع اور خارجہ امور مرکزی حکومت کے سپرد کیے جائیں۔
خان شہید کا ون یونٹ سے اختلاف اور پشتونستان صوبے کا قیام نیشنل عوامی پارٹی کے منشور کے مطابق لسانی ، ثقافتی ، جغرافیائی اور تاریخی بنیادوں پر صوبوں کی تشکیل تھی۔ لیکن بدقسمتی سے ولی خان اور باچا خان پارٹی (نیپ) کے منشور سے منحرف ہوئے اور برٹش بلوچستان (جنوبی پشتونخوا) کو قلات ڈویژن کے ساتھ ملاکر بلوچستان صوبہ بنایا جو جنوبی پشتونخوا کے پشتونوں کے ساتھ زیادتی تھی ۔
خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے ون یونٹ سے پہلے پشاور یادگار چوک پر خداہی خدمتگار اور ورور پشتون کے زیر اہتمام جلسہ عام جس میں باچا خان بھی موجود تھے ۔ خان شہید نے اپنی تقریر میں باچاخان سے پشتونستان صوبے کو واضح کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تمام پشتون علاقوں پر متصل جن میں جنوبی پشتونخوا ، اٹک ،میانوالی ، موجودہ خیبرپشتونخوا اور شمالی علاقہ جات پر مشتمل پاکستان کے اندر پشتونوں کا خودمختار پشتونستان صوبہ تشکیل کی جائے جس میں تجارتی ، عدالتی ، تعلیمی تدریسی زبان پشتو ہو۔
خان شہید کی پشتون خودمختاری کے لیے جدوجہد، بشمول ایک متحد خودمختار پشتون صوبے کا قیام، قدرتی وسائل پر اختیار، اور پشتو زبان کو سرکاری حیثیت دلوانے کی کوشش، نظریہ خودارادیت اور فیڈرلزم نظام کی روح کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کا وژن جمہوری وفاقیت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہے، جیسا کہ جان لاک کے نظریے میں واضح ہے، جس کے مطابق حکومت کی قانونی حیثیت عوام کی رضامندی سے مشروط ہے، اور ریاست کا فرض ہے کہ وہ انفرادی حقوق اور ثقافتی شناختوں کا تحفظ کرے۔ مزید برآں، ان کا موقف وِل کملکا کے‘‘ایتنوفیڈرلزم’’کے تصور سے بھی مطابقت رکھتا ہے، جو یہ تجویز کرتا ہے کہ سیاسی نظام کو مختلف ثقافتی اور مقامی اقوام کی منفرد شناختوں کو اپنانا اور ان کے تحفظ کے لیے تیار کیا جانا چاہیے۔
خان شہید کی پشتون خودمختاری، متحدہ پشتون صوبے، قدرتی وسائل پر اختیار، اور پشتو زبان کو سرکاری حیثیت دلوانے کی تحریک نہ صرف ایک سیاسی جدوجہد تھی بلکہ یہ ثقافتی بقا اور شناخت کی بحالی کی جنگ بھی تھی۔ ان کا نظریہ چارلس ٹیلر کے اس تصور سے مطابقت رکھتا ہے کہ کثیر الثقافتی معاشروں میں انصاف کے لیے لازم ہے کہ ریاست تمام قوموں کے ثقافتی حقوق کو تسلیم کرے اور ان کی شناخت کا احترام کرے۔ خان شہید نے سینٹرالائزیشن کے اس رجحان کو چیلنج کیا جو پاکستان میں مقامی زبانوں، ثقافتوں اور روایات کو دبانے کا سبب بنتا تھا، اور ایک ایسے وفاقی ڈھانچے کی وکالت کی جو نہ صرف سیاسی بلکہ ثقافتی خودمختاری کو بھی یقینی بنائے
ان کی سیاسی جدوجہد‘‘ساخیاتی تشدد’’(structural violence) کے نظریے سے بھی جڑتی ہے، جس کے تحت ریاستی ڈھانچے اور پالیسیاں پاکستان میں بسنے والے قوموں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھتی ہیں۔ خاص طور پر، پشتو زبان کو تعلیمی اور انتظامی نظام میں نظرانداز کرنا ایک ایسی پالیسی تھی جس نے پشتون بچوں کو ان کی تاریخ،شناخت، جڑوں، اور ورثے سے دور رکھنے کا کام کیا۔ خان شہید کی اس سیاسی تحریک اس نظام کے خلاف ایک مضبوط ردعمل تھی، جو نہ صرف سیاسی خودمختاری کے لیے بلکہ پشتون ثقافتی شناخت کے تحفظ کے لیے بھی ایک انقلابی جدوجہد کی حیثیت رکھتی تھی
خان شہید نے پاکستانی ریاست کی ان پالیسیوں پر شدید تنقید کی جو عوام کی فلاح و بہبود، خاص طور پر پسماندہ پشتونوں کے مسائل کو نظرانداز کرتے ہوئے عسکری اخراجات کو ترجیح دیتی تھیں۔ ان کی تنقید انتونیو گرامشی کے‘‘ہیجمنی’’کے نظریے کے تناظر میں واضح ہوتی ہے، جس کے مطابق حکمران اشرافیہ ملٹرائزیشن پر مبنی بیانیے کو فروغ دے کر اور تعلیم، صحت، اور اقتصادی ترقی جیسے اہم شعبوں کو نظرانداز کر کے اپنی طاقت کو برقرار رکھتی ہے۔ یہ پالیسیاں ایک ایسا مرکزی بیانیہ تشکیل دیتی تھیں جو سیکیورٹی اور سینٹرالائزیشن کو فوقیت دیتا تھا، جب کہ پشتون علاقوں جیسے پس ماندہ خطوں کو نظرانداز کیا جاتا تھا۔ خان شہید نے ان پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے ایک جمہوری وفاقی نظام کا مطالبہ کیا، جہاں صوبائی خودمختاری ہو اور وسائل کو سماجی فلاح و بہبود کیلئیاستعمال کیا جائے۔
جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے دوران خان شہید کی مزاحمت انتہائی جرات مندانہ اور واضح تھی۔ خان شہید نے ہمیشہ اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر مارشل لاء کی مخالفت جاری رکھی، اور اس کی قیمت جیل میں تقریباً نو سال گزارنے کی صورت میں ادا کی۔ ان کی اس بے خوفی اور ثابت قدمی کو اینٹونیو گرامشی کے‘‘ارگینک انٹیلیکچول’’کے نظریے کے تحت سمجھا جا سکتا ہے، جو مارشل لاء کے طاقت پاور سٹرکچر کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ ایک متبادل جمہوری سوچ پیش کرتا ہے۔ خان شہید کا جیل میں وقت صرف ذاتی قربانی نہیں تھا، بلکہ یہ آمرانہ ریاست کے خلاف ایک طاقتور مزاحمت تھی، اور پاکستان کے گیرژن اسٹیٹ میں تبدیل ہونے کے خلاف احتجاج تھا۔
خان شہید کا پشتو زبان کے لیے ایک الگ اور مخصوص املا متعارف کرانے اور اس پر عربی و فارسی کے اثرات کو محدود کرنے کا اقدام فونولوجیکل نظریے کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت تھی، جو زبان میں آوازوں اور ان کے نظام کے مطالعے سے متعلق ہے۔ انہوں نے ایسی املا کی تجویز دی جو پشتو کے قدرتی فونمز کو اجاگر کرتی تھی، تاکہ ایک ایسا تحریری نظام تشکیل دیا جا سکے جو زبان کی مخصوص صوتی خصوصیات اور ساخت کو صحیح طور پر نمایاں کرے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ پشتو زبان اپنی صوتیاتی اور ثقافتی شناخت کو برقرار رکھے، بجائے اس کے کہ اس پر دیگر زبانوں کا فونولوجیکل اثرات ڈالا جائے
خان شہید نے محسوس کیا کہ زبان کی املا صرف لکھنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ثقافتی ورثے اور قومی شناخت کی نمائندہ بھی ہوتی ہے۔ ان کے وسیع تراجم نے اس عمل کو مزید تقویت بخشی، جس کے ذریعے پشتو زبان کے فونولجیکل پہلوؤں کو نہایت باریکی سے تحریری الفاظ میں ڈھالا گیا۔ اس سے زبان کے بولنے اور لکھنے کے درمیان ایک مضبوط ربط قائم ہوا،
خان شہید کی سماجی اور سیاسی اصلاحات کو پیر بورڈیو کے‘‘سوشل فیلڈ تھیوری’’کے نظریے کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ انہوں نے پشتون معاشرے کو قبائلی نظام، پدرشاہی، اور نوآبادیاتی اثرات کی گہری جڑوں سے نکالنے کی بھرپور کوشش کی۔ سماجی میدان کے اندر، انہوں نے طاقت کے روایتی ڈھانچوں کو دوبارہ ترتیب دیا، خاص طور پر صنفی مساوات (جینڈر ایکولیٹی)کی۔ انہوں نے لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دیا اور اپنی بیٹی کو لڑکوں کے اسکول میں داخل کروا کر اس سوچ کو عملی طور پر ثابت کیا۔ مزید برآں، انہوں نے پشتونوں پر زور دیا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو وراثت میں ان کا جائز حصہ دیں، یوں صنفی اور اقتصادی ڈھانچوں میں موجود عدم مساوات کو توڑتے ہوئے ایک زیادہ منصفانہ اور ہم آہنگ معاشرے کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی۔
سیاسی میدان میں خان شہید نے قبائلی تقسیم کو ختم کرکے پشتونوں میں ایک وسیع قومی شعور بیدار کیا۔ انہوں نے قبائلی شناختوں کو پس پشت ڈال کر پشتونوں کو ایک متحد قوم کی شکل دی، جہاں انفرادی قبائلی وابستگیاں ایک اجتماعی قومی شناخت میں ڈھل گئیں۔ اس مقصد کے تحت انہوں نے پشتونوں کی پہلی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی، جو سیاسی میدان میں ایک تاریخی پیش رفت تھی۔ خان شہید کے اقدامات نے سماجی اور سیاسی طاقت کے ڈھانچوں کو ایک نئے انداز میں منظم کیا۔
عبدالصمد خان اچکزئی کی زندگی سینٹرالائزیشن کے خلاف وفاقیت اور آمریت کے مقابلے میں جمہوریت کی جدوجہد کی ایک روشن مثال ہے۔ 1939 میں‘‘انجمنِ وطن’’کی بنیاد رکھ کر انہوں نے پشتونوں کے سیاسی حقوق کی جنگ کا آغاز کیا اور اپنے اخبار‘‘استقلال’’کے ذریعے پشتون قوم پرستی کو ایک نئی آواز دی۔ وہ ایک ایسے پاکستان کے داعی تھے جو جمہوری ہو، جہاں علاقائی خودمختاری کا احترام کیا جائے اور سارے اقوام اپنے معاملات خود چلانے کا اختیار رکھیں۔ ون یونٹ اسکیم کی سخت مخالفت اور پشتون ثقافت کے تحفظ کے لیے ان کی طویل جدوجہد انہیں ایک بے مثال سیاسی رہنما کے طور پر نمایاں کرتی ہے۔ 22 سال کی قید و بند کی صعوبتیں اور بالآخر 2 دسمبر 1973 کو ان کی شہادت نے ان کی جدوجہد کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا، اور ان کا جدوجہد آج بھی جمہوریت، آئینی بالادستی، اور محکوم اقوام کے حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے ایک مثال ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ لکھیں