سید خیر محمد عارف
خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی برصغیر پاک و ہند کی ان عظیم المرتبت رہنماوں میں سے ایک ہے جنہوں نے برٹش امپریلزم کو اس وقت للکارا جس وقت ان کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہو رہا تھا۔ برطانوی سامراج سے لیکر قیام پاکستان تک اور قیام پاکستان سے لیکر ایوبی امریت کے اختتام تک اس نے ہر طرح کے گھمبیر صورت حال میں کلمۃ الحق کی پشتیبانی کی جہاں سچ دیکھا وہاں اس کی بھر پور حمایت کی اور جہاں جھوٹ، فریب، منافقت خود غرضی اور غلط چیز نظر آئی وہاں کھلے سے کھلے الفاظ میں نشاندہی کرنے سے نہ رکے، بلکہ ہر مکر و فریب کی علی الاعلان مخالفت کی اور تمام عمر مصلحت کوشی کو آڑے آنے نہیں دیا۔ مجھے یاد ہے کہ سرداروں خان بہادروں اور نوابوں اور ان کی طرف سے سرکار کی ہر جائز و ناجائز پالیسی کو قبول کرنے اور سرکاری حکام کے ہاں میں ہاں ملا نیکی مخالفت کرتے ہوئے خان شہید نے انہیں انگریزی دور کے مغبچوں سے تشبیھ دی۔ تو اس ناخواندہ اور پسماندہ معاشرے کے بہت سے لوگ اس لئے سٹپٹا گئے۔ کہ یہ ہمارے سرداروں کی توہین ہے۔
بہر حال یوں تو ہر دور میں حق پرستوں اور باطل پرستوں کے درمیان زندگی کے ہر میدان میں معرکہ آرائی جاری و ساری رہا ہے۔ لیکن بیسویں صدی میں آکر ہر اعتبار سے بہت سی تبدیلیاں محسوس کی گئیں۔ اس صدی میں بہت سے تخت و تاج مٹ گئے۔ زور گیر اور مستبد حکمرانوں کے ظلم و ستم کے باوجود بہت سے قوموں نے آزادی حاصل کی اور دنیا کے نقشے پر بہت نئے ممالک نمودار ہوئے۔ دو عظیم جنگوں کی وجہ سے کروڑوں انسان لقمہ اجل بنے اور آخری جنگ عظیم کے باعث انگریزوں کو برصغیر پاک و ہند سے بور یا بستر باندھ کر ہزاروں میل دور اپنے وطن جانا پڑا دوسری طرف اس پر تشدد صدی میں غلامی کی تاریک راہوں سے اپنے عوام کو نجات دلانے کے لئے عدم تشدد کو ہتیار بنا کر گاندھی جی باچا خان نیلسن منڈیلا اور خان شہید جیسے رہنما پیدا ہوئے۔
جہاں تک خان شہید کا تعلق ہے تو اس سے اپنی زندگی کا نصف حصہ انگریزوں اور پاکستانی جیلوں میں گذارا۔ اس معاندانہ رویے کے باوجود حکومت وقت کے خلاف نہ کبھی احتجاج کیا اور نہ جلوس نکالا بلکہ عدم تشدد کی پالیسی پر کار بند رہا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایوبی امریت کے خاتمے پر جب خان شہید دس سال جیل گذارنے کے بعد لورالائی آئے تو اس نے تقریر کرتے ہوئے صرف یہ کہا کہ میں اب بھی عوام کے درمیان عوامی حقوق کے حصول کیلئے موجود ہوں لیکن ایوب خان زندہ ہونیکے باوجود خدا کو پیارے ہو چکے ہیں۔
آج جب ہم خان شہید کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ ملک و قوم کی خدمت میں گذارا انتہائی نا مساعد حالات میں عزیز الیکڑانک پریس لگوایا۔ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے اور جذبہ آزادی کو فروغ دینے کیلئے بلوچستان کے سب سے پہلے اردو پشتو اخبار استقلال کا اجرا کیا اور یوں بابائے صحافت کا رتبہ حاصل کیا۔
یاد رہے کہ ایک صحافی کی حیثیت سے انہوں نے انگریزوں کی پابند سیاست اور صحافت کے عام رجحانات سے بغاوت کرکے اپنے نظریات اور فکر و نظر کو جرات اور سچائی کے ساتھ بیاں کرنے کا اپنایا۔ اگرچہ اس وقت یہ ایک دشوار اور جان سے گذر جانیوالی بات تھی۔ لیکن آزادی اظہار اور حریت فکر کے نقیب خان شہید نے ان تمام مشکلات سے بے پروا ہو کر سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہا اس وقت سچ کہنا اور لکھنا ایک جرم تھا۔ اسی جرم کی پاداش میں انہیں کربناک صورت حال سے دو چار کیا گیا۔ خان شہید لکھتے ہیں کہ ”جیل میں ایک ہفتہ مشقت چکی کرانے کے بعد مزید مشقت کیلئے انگریز سرکار نے ایک کُمارہ ترتیب دیا۔ مجھے بیس پچیس اخلاقی مجرموں کے ٹولے میں شامل کرکے پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ سخت سردی میں جیل سے چار میل دور جولان او ہتھکڑیوں کی جھنکار میں پیدل روانہ کرکے پانچ پانچ کے ٹولے کا کمارہ بناکر سرکاری بنگلوں میں کام کرنے کیلئے لیجاتے تھے۔ کمارے کے پانچ کے ٹولے کو (پنجہ) کا نام دیا جاتا تھا۔ ”
انگریزوں کے ظلم و ستم کے بارے میں ایک اور جگہ خان شہید رقمطراز ہیں، کہ انگریزوں نے ایک ناکردہ جرم کی پاداش میں مجھ سمیت میرے تین عزیزوں کو گرفتار کیا۔ تفتیش کرنے کے بعد جرم ثابت نہ کرسکے۔ لیکن اس کے باوجود بھی میرے چچا محمد انور خان کی تمام جائیداد بحق سرکار ضبط کی گئی۔ محمد ایوب خان پر ایک ہزار روپے جرمانہ عائد کیا اور ہمارے قبیلے کے تین ذیلی پرانچوں پر مجموعی جرائم عائد کئے۔ یہ سب کچھ نام نہاد جرگے کے فیصلے کے مطابق کیاگیا اور اس وقت کے سرکاری آفسر جو کے جرگے کا سر پنج ہوا کرتا تھا نے جرگے کی رائے کومن و عن تسلیم کرتے ہوئے لکھا کہ اس جرم کے تانے بانے گلستان سے ملتے ہیں جبکہ اس کو عملی جامہ کندہار میں پہنایا گیا۔
شومء قسمت، کے قیام پاکستان کے بعد بھی خان شہید کو چھین نصیب نہ ہو سکا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں انہیں انگریزوں سے بڑھ کر مصبتیں جھیلنی پڑی۔ خان شہید کی شہادت کے بعد مولانا اسد گیلانی نے ہفتہ روزہ چٹان لاہور میں ایک مضمون لکھا۔ کہ صمد خان میرے ساتھ پنجاب کے سیالکوٹ جیل میں مقید تھے۔ وہ خندہ پیشانی سے جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔ صرف ایک دن وہ مجھے کھوئے کھوئے نظر آئے۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ آج میرا بیٹا ملاقات کرنے آیا تھا۔ لیکن میں اسے دیر تک نہ پہچان سکا۔
خان شہید نے انگریزوں کے تاریک دور سے لیکر ایوبی امریت تک تمام محکوم قوموں کیلئے تنگ و تاریک راہوں میں روشنی کے چراغ جلائے رکھے او ر آخر دم تک کوشش کرتے رہے کہ ہر قوم اپنے قومی تشخص کے ساتھ اپنے اکائی کی طرف لوٹے لیکن سربر آوردہ طبقے کے لوگوں کے نزدیک قومی تشخص علاقائی زبانوں کی آبیاری اور کلچر کو فروغ دینا بد ترین جرم تھا۔ لہذا اس جرم سے نمٹنے کیلئے ون یونٹ کا نفاذ ضروری سمجھا گیا اور اس جرم کے مرتکب مجرم خان شہید کو سب سے پہلے گرفتار کیا گیا۔ جبکہ خان شہید کا موقف تھا۔ کہ موجودہ صوبوں کو انتظامی لحاظ سے مزید صوبوں میں تقسیم کیا جائے اور علاقائی زبانوں کو صوبائی زبانوں کا درجہ دیا جائے تاکہ نفرتوں کا خاتمہ ہو۔ خان شہید نے بطور دلیل کہا کہ آزادی کے وقت بھارت کو آٹھ صوبے ملے اور چار صوبے پاکستان کو ملے، بھارت نے عوام کو سہولت دینے اور نفرتوں سے بچنے کیلئے سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آٹھ صوبوں سے 45 صوبے بنائے جبکہ ہمارے ہاں پنجاب کی برتری کیلئے پیراٹی اور مضبوط مرکز کا نعرہ لگا کر چاروں صوبوں کو من و عن رہنے دیا گیا۔ جسکا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ خان شہید نے ہر انٹرویوں اور ہر سٹیج پر برملا کہا ملک کی بقا اور معاشی استحکام کا دارومدار مساوات برابری اور جمہوریت میں پنہاں ہے اس کے بغیر عظیم قومی عمارت کی تشکیل ممکن نہیں۔ گو کہ ہم نے چھوتائی صدی مایوس کن محرومی اور لاقانونیت کے ابر سیاہ میں بسر کی ہر آنیوالا منظر سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پشتو، پشتون اور پشتونولی کا نام لینا ہمارے لئے گناہ قرار دیا گیا ہے حالانکہ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں اپنے نام اور تشخص کے ساتھ جینا انسان کا بنیادی حق ہے۔
آج بھی اگر اس ملک کو غربت، محرومی اور احساس زیاں کی گہری کھائی سے نکالنا ہے جس میں وہ دھنس چکا ہے۔ تو خان شہید کے فکر و نظر کے مطابق اسکا واحد حل نئے صوبوں کی تشکیل، جمہوریت، مساوات، میرٹ اور تمام انسانی حقوق کی فراہمی اور احترام ہے۔
بہرکیف محکوم و مظلوم قوموں کی انسانی و معاشرتی حقوق کے حصول کی اس مقدس مشن کو آگے بڑھانے قومی اہداف کے حصول کو ممکن بنانے اور تشدد سے ہٹ کر عدم تشدد کے اس داہی نے ایک و یژنری رہنما کی حیثیت سے پاکستان کے مختلف جیلوں میں 32 سال گذارے۔ غالبا65 سال کی عمر میں آج ہی کے دن جام شہادت نوش کرتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہا۔ اس طرح ایک عہد ختم ہو گیا اور ایک تاریخ اختتام کو پہنچی۔