جب پنجاب کی عام عوام نے منگولوں سے جنگ لڑی

جب پنجاب کی عام عوام نے منگولوں سے جنگ لڑی

منگولوں کیلئے یہ پہلا موقع تھا جب سویلین ان کے سامنے کھڑے ہوئے تھے
نا صرف کھڑے ہوئے بلکہ پنجابیوں نے لاہور کا دفاع بھی کیا
یہ اس منگول آندھی کیلئے بہت بڑا دھچکا تھا جس نے بغداد سمیت مسلم دنیا کو تخت و تاراج کردیا تھا
ایک حیرت انگیز داستان کہ جس پر آج بھی یقین نہیں آتا
سنہ 1241 کے دسمبرکی ایک کہر آلود صبح غلغلہ بلند ہوا کہ لاہور کے حِصار کے اُس پار منگول لشکر کش ہیں۔
تاریخ دان آندرے ونک لکھتے ہیں کہ لاہور سنہ 1228 تک ایالتِ لاہور اور اقطاع ، یا یوں کہیے کہ ’مضافات و اطراف‘ سمیت ایک صوبہ بن چکا تھا اور یہاں عام طور پر حکمران اپنے بیٹوں یا پوتوں کو گورنر تعینات کرتے تھے۔
دلی کے سلاطین یہاں جنھیں گورنر مقرر کرتے وہی اس کے دفاع کے ذمہ دار ہوتے۔
منگولوں نے پنجاب کو پہلی مرتبہ سنہ 1221 میں دیکھا۔
تاریخ دان عزیزالدین احمد اپنی کتاب ’پنجاب اور بیرونی حملہ آور‘ میں لکھتے ہیں کہ تب ’چنگیز خان اپنے دشمن (جلال الدین) خوارزم شاہ کو پے درپے شکست دیتے (سمرقند سے) دریائے سندھ تک دھکیلتے ہوئے لے آئے تھے۔‘
’یہاں خوارزم شاہ کی فوج نے چنگیز خان کا آخری مقابلہ کیا اور جب شکست ہوتی نظر آئی توخوارزم شاہ گرفتاری سے بچنے کے لیے دریائے سندھ میں کود گئے۔‘
’کہا جاتا ہے کہ چنگیز خان نے خوارزم شاہ کو دریا میں چھلانگ لگاتے دیکھا مگر ان کا تعاقب کرنے سے منع کر دیا اور واپسی کا نقارہ بجا دیا۔‘
’ان کے ایک جرنیل بالا نویان نے منگول فوج کے دو تمن (بیس ہزار سپاہی) لیے کچھ دور تک خوارزم شاہ کا تعاقب جاری رکھا۔ ایک آدھ قصبہ تباہ کیا، ملتان کا محاصرہ بھی کیا لیکن جب گرمی کا موسم شروع ہوا تو برفانی علاقوں سے آئے ہوئے منگول ملتان کی گرمی کی تاب نہ لاسکے اور واپس لوٹ گئے۔‘
لیکن منگول پنجاب کے جغرافیے سے واقف ہو چکے تھے اور اس کے راستے جان چکے تھے۔
سنہ 1241 میں منگولوں نے پہلی بار پنجاب پر چڑھائی کی۔ چاروں طرف لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔ جو چیز سامنے آئی اسے برباد کیا۔
بہرام شاہ اپنی سوتیلی بہن رضیہ سلطان کی جان لے کر معزالدین مسعود شاہ کے نام سے ہندوستان کے خاندان غلاماں کے چھٹے سلطان بنے تھے۔ امرائے چہلگانی ان کے معاون ومدد گار تھے لیکن یہ امرا ’بادشاہ گر‘ کہلاتے تھے۔ بہرام شاہ کا دو سالہ دور بے امنی کا دور رہا کیونکہ امرائے چہلگانی سازشوں میں مصروف رہے اور بادشاہ کے حکم کو بھی تسلیم نہیں کرتے تھے۔
تیرہویں صدی کے فارسی مؤرخ قاضی منہاج سراج جوزجانی نے اپنی کتاب ’طبقات ناصری‘ (ترجمہ غلام رسول مہر) میں لکھا ہے کہ ’تاتاری لشکروں کے آنے کی خبر ملتان پہنچی تو یہاں کے والی ملک کبیر الدین ایاز نے اپنی عزت کی خاطر چَتر شاہی (بادشاہوں کے سر پر لگایا جانے والا بڑا چھاتا) کا انتظام کر لیا اور فوج جمع کر لی اور لڑائی کے لیے تیار ہو گئے۔‘
’ان کی تیاری اور جمعیت کی خبر تاتاریوں کی لشکرگاہ پہنچی تو انھوں نے فیصلہ کر لیا کہ لاہور پر حملہ کرنا چاہیے۔چنانچہ وہ شہر لاہور کے دروازے پر پہنچ گئے۔‘
اختیارالدین قراقش لاہور کے والی تھے۔
منہاج سراج لکھتے ہیں کہ قلعہ لاہور میں خوراک اور سامانِ جنگ کا کوئی ذخیرہ موجود نہ تھا۔ لاہور کے رہنے والے بھی یک دل اور متفق نہ تھے۔
’اکثر لوگوں کا پیشہ تجارت تھا۔ وہ تاتاریوں کے دورِاقتدار میں خراسان کے شمالی حصوں اور ترکستان کے اندر سفر کر چکے تھے اور احتیاط و حفاظت کی غرض سے تاتاریوں سے پائزہ اور امان نامہ حاصل کرلیا تھا۔‘
پائزہ، چاندی یا سونے کی لکڑی کی ایک چھوٹی سی تختی تھی جس پر خدا اور بادشاہ کے نام کے بعد ایک خاص نشان کندہ ہوتا تھا۔ اس کو ’پاس‘ سمجھنا چاہیے۔
منہاج سراج کے مطابق اس ( پائزے) کے بل پر وہ قلعے کی حفاظت کے لیے ملک اختیارالدین قراقش کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔ دفاع یا جنگ میں کوئی امداد دینے پر آمادہ نظر نہیں آتے تھے۔
دلی سے کسی قسم کی مدد لاہور نہ پہنچی۔
اس کا دفاع منہاج سراج نے یوں کیا کہ ’لشکر اسلام اس وجہ سے جمع نہیں ہوتا تھا کہ غوری اور ترک سردار سلطان معز الدین بہرام شاہ سے خوف زدہ تھے۔ یہی سبب ہوا کہ تاتاریوں کے دفعیے کے لیے دلی سے لشکر جلد لاہور کی جانب روانہ نہ ہو سکا اور ایک مدت تک لاہور کے دروازوں پر جنگ جاری رہی۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ تاتاریوں نے لاہور کے اطراف میں بہت سی منجنیقیں نصب کر دیں اور فصیل کو توڑ پھوڑ ڈالا۔
’ملک اختیار الدین قراقش کو جب اہل لاہور کے مختلف اور متفرق رجحانات کا علم ہو گیا اور انھوں نے دیکھ لیا کہ قاضی اور ممتاز اصحاب فصیلِ شہر پر پہرہ دینے میں بہت کوتاہی کر رہے ہیں تو ساتھ ہی اندازہ ہو گیا کہ اس صورتِ حال کا انجام اچھا نہیں ہو سکتا اور ایسے شہر کی حفاظت ان کی طاقت سے باہر ہے۔‘
’لہٰذا قراقش نے اپنی فوج اور نوکروں چاکروں کو شب خون کے بہانے ساتھ لیا، شہر سے باہر نکلے، تاتاریوں پر سخت حملہ کیا، ان کے لشکر کی صفیں درہم برہم کر کے رکھ دیں اور دلی روانہ ہو گئے۔‘
’اس حملے میں ان کے بعض خاص آدمی اور عورتیں الگ ہوئیں ( بعض ماری گئیں)۔ فوج کے کچھ آدمی بھی مقتول ہوئے۔ بعض رات کی تاریکی اور شور و ہنگامہ میں گھوڑوں سے کود کر ویران جگہوں اور قبرستانوں میں چھپ گئے۔ملک اختیار الدین قراقش کی بیوی بھی کسی جگہ پوشیدہ ہو گئیں۔‘
منہاج سراج لکھتے ہیں کہ دوسرے روز اہل شہر اور تاتاریوں کو ملک قراقش کے بھاگنے اور باہر نکل جانے کا علم ہوا۔
’اس سے اہلِ شہر کے دل بالکل ٹوٹ گئے۔ تاتاریوں کی بن آئی، وہ 22 دسمبر 1241 کو شہر پر قابض ہو گئے۔‘
’ہر محلے میں لڑائیاں ہوئیں۔ شہر کے مسلمانوں نے جہاد میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔‘
’مصیبت کے اس دور میں مسلمانوں کے دو جتھوں نے جانیں ہتھیلی پر رکھ لیں، تلواریں علم کر لیں۔ جب تک ان کے اعضا کی ایک ایک رگ بھی سلامت تھی اور اعضا حرکت کر سکتے تھے، وہ تلواریں چلاتے اور تاتاریوں کو جہنم رسید کرتے رہے۔ تا آنکہ دونوں جتھے انتہائی سعی و کوشش اور سرگرمی عمل کے بعد شہادت پا گئے۔‘
’ان میں سے ایک جواں مرد لاہور کے کوتوال تھے، جن کا نام آقسنقر تھا۔ اس جنگ و پیکار میں ہزار رستموں پر بھی ترجیح حاصل تھی۔ وہ اپنے متوسلوں کے ہمراہ برابر لڑتے رہے۔ دوسرے بہادر دین دار محمد تھے، جو لاہور میں میرِ اصطبل تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹوں اور متوسلوں کے ساتھ شہادت پائی۔‘
طبقاتِ ناصری میں لکھا ہے کہ (طائر بہادر کی قیادت میں) تاتاریوں نے شہر لے لیا تو لوگوں کو ہلاک بھی کیا اور گرفتار بھی کر لیا لیکن خود تاتاری اتنے مارے جا چکے تھے کہ ان کی گنتی مشکل ہے۔
’قریباً تیس یا چالیس ہزار تاتاری اور اسی ہزار گھوڑے مارے گئے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور تاتاریوں کے لشکر میں ایک بھی ایسا نہ تھا جس کے تیر یا تلوار یا ناوک کا زخم نہ لگا ہو۔‘
’طائر بہادر اور آقسنقر کوتوال کے درمیان نیزوں سے مقابلہ ہوا۔ ہر ایک نے دوسرے کو نیزے سے زخمی کیا۔ طائر بہادر نے دوزخ کی راہ لی اور آقسنقر جو شیر کی مانند تھے، بہشت میں پہنچ گئے۔‘
تاہم طبقاتِ ناصری کا انگریزی ترجمہ کرنے والے مستشرق میجر جارج ہنری راورٹی کے نزدیک لاہور میں طائر بہادر کے مارے جانے کی خبر صحیح نہیں۔
منہاج سراج لکھتے ہیں کہ تاتاریوں نے لاہور پر قبضہ کر لیا اور شہر کو برباد کر کے لوٹ گئے۔
’ملک قراقش دریائے بیاس سے لوٹ کر لاہور پہنچے۔ جس رات وہ لاہور سے بھاگے تھے، بہت سا مال و زر، جس میں نقد بھی تھا اور سامان بھی تھا۔ ان کے آدمی پانی میں ڈال گئے تھے اور اس مقام پر نشان لگا گئے تھے۔ ملک مال ہی کی غرض سے لاہور آئے تھے۔ مال انھیں مل گیا کیوںکہ وہ تاتاریوں کے ہاتھ نہیں آیا تھا۔‘
عزیزالدین احمد لکھتے ہیں کہ کچھ مؤرخوں کا کہنا ہے کہ منگولوں نے لاہور پر پورا سال قبضہ جمائے رکھا اور شہر کے مظلوم عوام اور مضافات کی بستیوں کے سہارا لوگوں کو جی بھر کر لوٹا اور برباد کیا۔
محمد حذیفہ نظام کے مطابق منگول فوج کے اکثر حملے جنوبی ایشیا کے مغربی سرحدی علاقوں کے لیے ایک نئی حقیقت بن گئے۔
’چغتائی خانات کے جھنڈے تلے منگولوں کو شمالی پنجاب میں مستقل موجودگی قائم کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ سماجی اور سیاسی نظم و نسق کے مکمل طور پر تباہ ہونے کے علاوہ، قابل کاشت اراضی کا وسیع خطہ برباد ہو گیا اور گھاس کے میدان میں تبدیل ہو گیا کیونکہ خانہ بدوش منگول طرز زندگی سے وابستہ جنگی گھوڑے اور مویشی دریائے سندھ کے علاقے میں داخل ہوئے۔‘
سنہ 1916کے لاہور کے گزٹیئر میں لکھا ہے کہ لگ بھگ ایک صدی لاہور مسلسل منگول حملوں کی زد پر رہا۔
’سنہ1241 میں قبضہ کیا اور 1246 میں خراج پر دیا گیا۔ شہر کو (خاندان غلاماں کے آٹھویں سلطان غیاث الدین بلبن) نے 1270 میں دوبارہ تعمیر کیا لیکن 1285 میں منگولوں کی واپسی ہوئی اور بلبن کے بیٹے، شہزادہ محمد، راوی کے کنارے ایک معرکے میں مارے گئے۔ شاعر امیر خسرو کو اسی وقت گرفتار کیا گیا۔‘
’(لاہور میں) مغل پورہ کے نواحی علاقے کی بنیاد منگول آباد کاروں نے رکھی ۔ دُوا چغتائی نے 1301 میں لاہور پر حملہ کیا۔ 1398 میں تیمور کی فوج کے دستے نے لاہور پر قبضہ کیا اور ایسا لگتا ہے کہ یہ شہر تب تک ویران پڑا تھا جب تک اسے مبارک شاہ نے 1422 میں دوبارہ تعمیر نہیں کیا۔ 1524 میں (ظہیر الدین) بابر کی فوجوں نے لاہور کو لوٹا۔‘
محمد حذیفہ نظام لکھتے ہیں کہ منگول دراندازی اور تباہی اور دلی سلطنت کی طرف سے کبھی کبھار جوابی حملے، 14ویں صدی کے آخر میں تیمور کے تباہ کن حملے تک متواتر آزمائش رہے۔ یہاں تک کہ (منگول) چنگیز خان اور تیمور دونوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک اور فاتح 1526 میں پانی پت پہنچا۔
’اس فاتح جس کا نام ظہیر الدین بابر تھا، کو ہمیشہ کے لیے جنوبی ایشیا کی تاریخ کا رُخ بدلنا تھا۔‘
گزٹئیر میں لکھا ہے کہ مغل دور ہی میں لاہور ایک بار پھر شاہی رہائش گاہ اور ابوالفضل کی زبان میں ’تمام قوموں کے لوگوں کا عظیم ٹھکانا‘ بن گیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں