ملک میں دواؤں کے غلط استعمال سے سالانہ ہلاکتوں کی تعداد 5 لاکھ ہوگئی۔
کراچی..پاکستان میں سالانہ 5 لاکھ سے زائد افراد طبی غلطیوں، خاص طور پر ادویات کے غلط استعمال کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کیونکہ ملک میں صرف 5 فیصد فارمیسیز میں تربیت یافتہ اور مستند فارماسسٹ موجود ہیں جبکہ ملک کے نصف اسپتال فارمیسی کے ماہرین کے بغیر چل رہے ہیں۔
کراچی میں روز الخدمت فارمیسی سروسز کے زیر اہتمام منعقدہ پہلے میڈیکیشن سیفٹی کانفرنس میں صحت کے ماہرین، فارماسسٹ اور دوا ساز صنعت کے رہنماؤں نے شرکت کی اور فارماسسٹ کے بغیر چلنے والے میڈیکل اسٹورز، فارمیسیز اور دوائیوں کے غلط استعمال کے سنگین نتائج پر روشنی ڈالی۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عاصم رؤف نے اعتراف کیا کہ دوائیوں کے غلط استعمال کا مسئلہ عالمی نوعیت کا ہے، لیکن پاکستان میں ادویات کے غلط استعمال کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات اور واقعات کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہو پاتی کیونکہ ان کی رپورٹنگ کم ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز دوائیوں کے غلط استعمال روکنے کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہوتے جبکہ فارماسسٹ اس نقصان کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کوئی بھی اسپتال یا فارمیسی فارماسسٹ کے بغیر نہیں چلنی چاہیے اور ہم ڈبلیو ایچ او کی سفارشات کے مطابق دوائیوں کے محفوظ استعمال کو یقینی بنانے پر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے طبی ماہرین پر زور دیا کہ ادویات کے استعمال سے ہونے والے ری ایکشن اور طبی مسائل کی نشاندہی کریں تاکہ فارماکوویجیلنس سسٹم کو مضبوط بنایا جا سکے اور دوائیوں کے غلط استعمال سے ہونے والی اموات کو روکا جا سکے۔
الخدمت فارمیسی سروسز کے ڈائریکٹر سید جمشید احمد نے پاکستان میں فارمیسیز کی حالت زار پر تنقید کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ملک بھر کی 60,000 فارمیسیز میں سے صرف 3,000 میں مستند فارماسسٹ موجود ہیں۔
“باقی 95 فیصد فارمیسیز کو گروسری اسٹورز کی طرح غیر تربیت یافتہ عملہ چلا رہا ہے جو اکثر غلط دوائیاں دے کر مہلک نتائج کا باعث بنتا ہے،” انہوں نے کہا اور مطالبہ کیا کہ فارماسسٹ کے بغیر فارمیسی چلانے کو قانونی جرم قرار دیا جائے۔
سید جمشید احمد نے الخدمت کے اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کی فارمیسیز مستند فارماسسٹ کے ذریعے معیاری دوائیاں فراہم کرتی ہیں جو مریضوں کو درست خوراک اور استعمال میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے سابق ڈائریکٹر آف فارمیسی سروسز، معروف فارماسسٹ عبداللطیف شیخ نے کہا کہ ڈاکٹروں کی ہاتھ سے لکھی ہوئی نسخے اکثر غلطیوں کا سبب بنتی ہیں۔
“غیر تربیت یافتہ عملہ ڈاکٹروں کے ناقابلِ شناخت نسخے کے باعث غلط دوائیاں دیتا ہے، جس سے اموات واقع ہوتی ہیں،” انہوں نے کہا اور دوائیوں کی تیاری کے لیے محفوظ خام مال اور بغیر خوف کے غلطیوں کی رپورٹنگ پر زور دیا۔
الخدمت کے ڈائریکٹر آف میڈیکل سروسز، ڈاکٹر ثاقب انصاری نے فارماسسٹ کے لیے ایک سالہ معاوضے کے ساتھ انٹرن شپ پروگرام متعارف کرانے کی تجویز دی۔
“فارماسسٹ نے اسپتالوں میں اموات کی شرح کم کرنے میں اپنا کردار ثابت کیا ہے۔ انہیں بیرون ملک مواقع تلاش کرنے کے بجائے ملک کی خدمت کرنی چاہیے،” انہوں نے کہا اور مزید بتایا کہ الخدمت اسپتال اس طرح کے مواقع فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے نمائندے، شیخ قیصر وحید نے افسوس کا اظہار کیا کہ 90 فیصد فارماسسٹ، جو زیادہ تر خواتین ہیں، شادی کے بعد پیشہ چھوڑ دیتی ہیں یا کام کرنے سے گریز کرتی ہیں۔
انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹیوں دونوں کو فارمیسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس شعبے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب دیں۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیوویسکولر ڈیزیزز (این آئی سی وی ڈی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے روزانہ سینکڑوں قلبی مریضوں کو دوائیاں دینے کے محفوظ طریقہ کار کی وضاحت کی۔ اسی طرح، تبہ ہارٹ انسٹی ٹیوٹ کے مینیجنگ ڈائریکٹر پروفیسر بشیر حنیف نے اپنے ادارے میں ادویات کے محفوظ استعمال کے اقدامات اور خطرناک دوائیوں سے بچاؤ کے طریقے بیان کیے۔
کانفرنس میں سینئر معالجین، جن میں پروفیسر عبد المالک اور ڈاکٹر عظیم الدین شامل تھے، نے مریضوں کے نتائج کو بہتر بنانے میں فارماسسٹ کے کردار پر روشنی ڈالی۔
الخدمت فاؤنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر زاہد لطیف نے تنظیم کے صحت کی خدمات تک رسائی کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے دوائیوں کے محفوظ استعمال کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اجتماعی اقدامات کی اپیل کی۔
ماہرین نے کانفرنس میں زور دیا کہ فارمیسیز اور اسپتالوں میں مستند فارماسسٹ کی موجودگی کو لازمی قرار دینے سے طبی غلطیوں کو کم کیا جا سکتا ہے اور قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔