ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
ڈاکٹر ارشاد خان کا افسانہ “میرا خواب” آج کے میرے کالم کا موضوع ہے۔ اس افسانے کے بارے میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ ایک عام انسان کی زندگی کی مشکلات، خواہشات، اور خوابوں کے گرد گھومتا ہوا ایک طنزیہ اور مزاحیہ افسانہ ہے۔ یہ افسانہ محض ایک کہانی ہی نہیں بلکہ اس میں افسانہ نگار نے انسانی نفسیات، سماجی رشتوں، اور معاشرتی ناہمواریوں کی عکاسی بھی کی ہے۔
افسانہ ایک ایسے فرد کی زندگی کا احاطہ کرتا ہے جو بچپن میں غربت کا سامنا کرتا ہے اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ بچپن کی یادیں، خواہشات کی تکمیل میں ناکامی، اور پھر زندگی کی تلخیوں کے ساتھ آگے بڑھنا کہانی کا مرکزی خیال ہے۔ کہانی کے آخر میں خوابوں کی دنیا اور حقیقت کی تلخیوں کا تصادم ایک مزاحیہ موڑ پر ختم ہوتا ہے۔
افسانے کی کئی خصوصیات ہیں جن میں پہلی خصوصیت طنز و مزاح کی جھلک ہے جو قارئین کو ہنسانے پر مجبور کرتا ہے۔ افسانہ نگار نے طنز و مزاح کے ذریعے کہانی کو دلچسپ بنانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً: “یہ منہ اور مسور کی دال” اور “کار گر باتیں” جیسے جملے مزاح پیدا کرتے ہیں اور قاری کو آخر تک کہانی سے جوڑتے ہیں۔
کہانی میں خاندانی رشتوں کی اہمیت اور ان کے ساتھ آنے والی پیچیدگیوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ بیگم اور سسر کے کرداروں کے ذریعے ازدواجی زندگی اور خاندانی ذمہ داریوں کے تناؤ کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
افسانے میں مصنف نے انسانی خواہشات اور حقیقت کے درمیان موجود تضاد کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ خواہشات کی تکمیل کے باوجود سکون نہ ملنا اور مزید کی طلب انسانی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔
کہانی میں بچپن کے حالات اور مالی مشکلات کے ذکر سے سماجی ناہمواریوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ سائیکل کی خواہش اور مالدار بچوں کی حسرت بھری کہانی غربت کے اثرات کو واضح کرتی ہے۔
کہانی کے اختتام پر خواب اور حقیقت کے ٹکراؤ کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ خواب میں بیگم کا کان موڑنا اور حقیقت میں سسر کے خراٹے ایک مزاحیہ موڑ پیدا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ارشاد خان کا اسلوب رواں، سادہ اور عام فہم ہے۔ انہوں نے زبان میں مزاح پیدا کرنے کے لیے محاورات اور روزمرہ بول چال کے جملوں کا خوب استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر، “مال مفت دل بے رحم” اور “چھپر پھاڑ کر دیتا ہے” جیسے محاورے کہانی کو زندگی سے قریب تر بناتے ہیں۔
افسانے میں مصنف نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ خواہشات کی تکمیل خوشی کی ضمانت نہیں ہے۔ زندگی میں سکون اور اطمینان صرف مادی اشیاء سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ رشتوں اور حقیقت کو قبول کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
افسانہ اپنے مزاحیہ اور طنزیہ پہلو کے باوجود کچھ جگہوں پر طوالت کا شکار ہوتا ہے، خاص طور پر بیگم اور سسر کے کرداروں کے مکالمے۔ تاہم مجموعی طور پر کہانی قاری کو بور نہیں ہونے دیتی اور اختتام پر ایک دلچسپ موڑ فراہم کرتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ “میرا خواب” ایک ایسا افسانہ ہے جو قاری کو ہنساتے ہوئے زندگی کی تلخ حقیقتوں پر غور و فکر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ افسانہ نہ صرف تفریح فراہم کرتا ہے بلکہ انسانی نفسیات، سماجی رویوں، اور زندگی کی حقیقتوں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ ڈاکٹر ارشاد خان نے کامیابی سے ایک عام انسان کی زندگی کے خوابوں اور حقیقتوں کے بیچ موجود کشمکش کو پیش کیا ہے۔ میں مصنف کو اتنی اچھی کہانی تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔