ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
rachitrali@gmail.com
ڈاکٹر محمد کلیم ضیا غزل کے شاعر ہیں لیکن حمد، نعت اور صنعت توشیح میں بہترین نظمیہ کے لیے مشہور ہیں، میری کھوار اور اردو زبان میں کتاب گلستان مصطفیٰ ﷺ کے لیے توشیحی نظم لکھی تھی جوکہ پاک و ہند قارئین میں یکساں مقبول ہے۔ آپ کی غزل بھی ایک عمدہ فکری و تخلیقی نمونہ کے طور پر ہمارے سامنے ہے جو ک ان کے شعری کمالات اور زندگی کے گہرے مشاہدے کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ غزل مختلف پہلوؤں سے انسانی رویوں، معاشرتی مسائل، اور ذاتی اصلاح کا گہرا احاطہ کرتی ہے۔
آپ کی شاعری میں حوصلے اور عزائم کی طاقت کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ زیر تبصرہ غزل کا پہلا شعر انسانی عزم و حوصلے کی طاقت کو نمایاں کرتا ہے مثلاً:
“فقط یہ حوصلوں کی اور عزائم کی بدولت ہے
ہوا کا رخ بدلنے میں چراغوں کی بھی طاقت ہے”
کلیم ضیا کا یہ شعر اس بات کا عکاس کرتا ہے کہ کمزور سمجھے جانے والے چراغ بھی حوصلے اور عزم کے ساتھ ہوا کا رخ بدل سکتے ہیں۔ یہ ایک استعارہ ہے جو جدوجہد اور مستقل مزاجی کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
غزل میں خون کے رشتوں کی تلخی کو بھی موضوع سخن بنایا گیا ہے جیسے:
“حقیقی بھائی قاتل میرا نکلے تو تعجب کیا؟
جناب من یہ آدم کے ہی بیٹوں کی روایت ہے”
اس شعر میں شاعر انسانی فطرت کی تلخ حقیقتوں کو بیان کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جہاں خون کے رشتے بھی نفرت یا خودغرضی کی بھینٹ چڑھ سکتے ہیں۔ یہ شعر قرآن و حدیث کے اس شعر میں شاعر اس تناظر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قابیل اور ہابیل کی کہانی انسانی تاریخ کا حصہ ہے۔
آپ کی شاعری میں توبہ اور ندامت کا فلسفہ بھی ہے مثلاً:
“جو نادم ہو گیا ہو پھر ذلیل اس کو نہیں کرتے
جسے کہتے ہیں توبہ اصل میں وہ ہی ندامت ہے”
اس شعر میں شاعر اصلاح اور معافی کے موضوع کو بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کلیم ضیا نے ندامت کو توبہ کی اصل روح قرار دیا ہے، جو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے۔
اپنی شاعری میں شاعر انا کے زہر کو بھی شامل کیا ہے مثال کے طور پر:
“انا کا سانپ زہریلا بہت زہریلا ہوتا ہے
وہ جب بھی پھن اٹھائے تو، کچلنے کی ضرورت ہے”
اس شعر میں شاعر انسان کی انا اور خود پسندی کے نقصانات کو بیان کرتا ہے۔ “انا کا سانپ” ایک طاقتور استعارہ ہے جو انسان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے والی طاقتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
آپ کی غزل میں پاکیزہ سیاست کا تصور بھی پیش کیا گیا ہے مثلاً:
“جنھیں پرہیز ہے اس سے غلط فہمی کے حامل ہیں
جسے اسلام کہتے ہیں وہ پاکیزہ سیاست ہے”
اس شعر میں شاعر اسلام کی حقیقی روح اور اس کے سیاسی اصولوں کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کلیم ضیا نے اسلام کی سیاست کو پاکیزہ اور انسانی بھلائی پر مبنی قرار دیا ہے، جو آج کے دور کی سیاست کے مقابلے میں ایک مثالی تصور ہے۔
آپ کی شاعری میں ذہنی و جذباتی آلودگی کو بھی موضوع بنایا گیا ہے جیسے:
“کبھی تازہ فضاؤں سے یہ ذہن و دل معطر تھے
مگر ان میں تو اب خالص کثافت ہی کثافت ہے”
اس شعر میں شاعر موجودہ دور کی اخلاقی اور فکری زوال کو بیان کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ شاعر نے معاشرتی آلودگی کو ذہن اور دل کی آلودگی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، جو جدید دنیا کے مسائل کا عکاس ہے۔
آپ کی شاعری میں محنت اور کرم کا امتزاج بھی پایا جاتا ہے جیسے:
“کرم اس کا ہے بیساکھی بنا پہنچا بلندی پر
مگر اس میں ضیا کیا کچھ تمہاری بھی ریاضت ہے؟”
اختتامی شعر میں شاعر نے کرم اور ذاتی محنت کے امتزاج پر زور دیا ہے۔ یہ شعر خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے اور کامیابی کے لیے اللہ کے فضل اور انسانی محنت دونوں کی ضرورت کو واضح کرتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد کلیم ضیا کی یہ غزل زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے انسانی رویوں، معاشرتی مسائل، اور اصلاح نفس کے لئے ایک جامع پیغام فراہم کرتی ہے۔ شاعر نے استعاروں، علامتوں، اور تشبیہات کے ذریعے گہرے خیالات کو سادگی اور روانی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہ غزل قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔