ڈاکثر رحمت عزیز خان چترالی*
رانا بھگوان داس ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے ایک معتبر جج اور منفرد شاعر تھے۔ انہوں نے اپنی نعتیہ شاعری کے ذریعے نہ صرف اپنی عقیدتئ کا اظہار کرتے ہیں بلکہ انسانیت اور بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک روشن مثال بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں عشقِ رسول ﷺ کی گہرائی اور ان کے الفاظ میں عقیدت و احترام کی جھلک نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ جسٹس رانا بھگوان داس کہتے ہیں
“تو فیاضِ عالم ہے دانائے اعظم
مبارک ترے در کا ہر اِک سوالی”
رانا بھگوان داس 20 دسمبر 1942ء کو سندھ کے علاقے قمبر شہداد کوٹ میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان کی عدلیہ میں پہلے ہندو جج تھے، جنہوں نے اپنی دیانتداری اور اصول پسندی سے نہ صرف عدالتی نظام بلکہ عوام کے دلوں میں بھی اپنا مقام بنایا۔ ان کی اسلامیات میں دلچسپی اور اس موضوع پر ماسٹرز کی ڈگری نے ان کی فکری وسعت اور مذہبی ہم آہنگی کو مزید تقویت دی۔ بھگوان داس کہتے ہیں
“نہ مایوس ہونا ہے یہ کہتا ہے بھگوانؔ
کہ جودِ محمدﷺ ہے سب سے نرالی”
جسٹس رانا بھگوان داس کی نعتیہ شاعری ان کی شخصیت کے اس پہلو کو نمایاں کرتی ہے جو مذہبی رواداری اور انسانی یکجہتی پر مبنی ہے۔ ان کے اشعار میں رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اعلیٰ صفات، آپ کی عظمت، اور آپ سے محبت کا ذکر اس انداز میں کیا گیا ہے کہ یہ صرف عقیدت کا اظہار نہیں بلکہ انسانیت کے لیے ایک پیغام بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
“احتراما تھے ایستادہ جن و ملک
نغمہ گر حور و غلماں تھے صل اعلی”
ان کی نعتیہ شاعری میں عقیدت کے ساتھ ساتھ محبت کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ ان کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیئے:
“جمالِ دو عالم تری ذاتِ عالی
دو عالم کی رونق تری خوش جمالی”
بھگوان داس اپنے ان اشعار میں رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کے جمال اور عظمت کی تعریف کرتے ہیں۔ ان کا انداز بیان نہایت سادہ اور دل کو چھو لینے والا ہے جو ہر مذہب کے پیروکار کے لیے قابلِ قبول ہے۔ جسٹس داس کہتے ہیں:
“حسن اور عشق میں آج پردہ کشا
فرش پہ مصطفیﷺ عرش پہ کبریا”
ان کی شاعری میں بین المذاہب ہم آہنگی کی عکاسی کی گئی ہے۔ رانا بھگوان داس نے نعتیہ کلام میں صرف عشقِ رسول ﷺ کا اظہار نہیں کیا بلکہ انسانیت کے لیے ایک پیغام بھی دیا ہے مثلاً:
“نگاہِ کرم ہو نواسوں کا صدقہ
ترے در پہ آیا ہوں بن کے سوالی”
جسٹس بھگوان داس ان اشعار میں اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تمام انسانوں کے لیے رحمت ہیں۔ سلام کے اشعار میں کہتے ہیں:
“السلام اے شاہ خوباں السلام
نازش و رشک حسیناں السلام
شہر یار عالم حسن و جمال
تاجدار دین و ایماں السلام
روئے تو آئینہ اسرار حق
راز دار سر یزداں السلام”
ان کی شاعری میں کلاسیکی اردو شاعری کی خوبصورت جھلک ملتی ہے۔ ان کے اشعار میں “جمالِ دو عالم” اور “نگاہِ کرم” جیسی تشبیہات کا استعمال ان کی شاعری کو مزید دلکش بناتا ہے۔رانا بھگوان داس کہتے ہیں:
”عرش حق کی طرف جب چلے مجتبی
جلوہ آرا تھا ہر سمت نور خدا”
ان کے اشعار میں وزن اور قافیہ بندی کی خوبصورتی نمایاں طور پر نظر دکھائی دے رہی ہے، جو ان کی شعری مہارت کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
“عرش اعظم سے آنے لگی یہ صدا
مرحبا مصطفیﷺ مرحبا مصطفیﷺ”
ان کی شاعری میں عشقِ رسول ﷺ کے ساتھ ساتھ انسانیت، امن، اور محبت کا پیغام بھی شامل ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جسٹس رانا بھگوان داس کی نعتیہ شاعری نہ صرف ان کی شخصیت کی گہرائی کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ بین المذاہب محبت اور رواداری کی ایک روشن مثال بھی ہے۔ ان کے اشعار مذہبی حدود سے بالاتر ہو کر انسانیت کے لیے ایک پیغام ہیں۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔