ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
خوشحال خان خٹک اپنی پشتو شاعری میں اپنے وقت کے سماجی، ادبی اور ثقافتی پس منظر کو اشعار میں شامل کیا ہے ۔زیر تبصرہ اس پشتو غزل میں شاعر نے نہ صرف اپنی آزاد خیالی اور فطری مناظر سے محبت کا اظہار کیا ہے بلکہ وہ اپنے عہد کے مذہبی اور سماجی رویوں پر بھی طنز کرتے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ان کی شاعری میں فطرت اور بہار کا جمالیاتی اظہار جابجا ملتا ہے۔غزل کا آغاز باغ اور بہار کی منظر کشی سے ہوتا ہے، جہاں شاعر نے فطرت کے حسن کو ایک مرکزی موضوع کے طور پر شاعری میں شامل کیا ہے۔ خٹک کہتے ہیں:
سو پہ باغ کے لا یؤ گل دَ نو بہار شتہ
دَ بلبلو د طوطیانو پرے چغار شتہ
کھوار:کلہ پت کی گرزینہ بوسونیو ای گمبوری دی باقی شیر، عندلیب بوئیکو اوچے طوطیان چوڑیک جاری بہچونی۔
یہ مصرع خوشحال خان خٹک کی جمالیاتی حس اور فطرت سے گہری وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے کلام میں فطرت ہمیشہ ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، جو ان کی شاعری کو زندگی سے قریب اور دلکش بناتی ہے۔
خٹک کی شاعری میں یار کی صحبت کے ساتھ ساتھ غم کی دوری کا بھی زکر ملتا ہے۔ شاعر غم کو ایک ثانوی حیثیت دیتے ہوئے یار کی صحبت کو ترجیح دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مثلاً:
ن دے غم لہ ما نہ زان ساتی کہ خہ کا
چی پہ سیل د بہار را سرہ یار شتہ
کھوار: ہنون غم مہ ساری دودیری تان بہچار ہیہ مہ حقہ جم شیر کی بوسونیو وختہ گرزینی سئیل کوراوا مہ دوست مہ جوستہ سئیل کورویان۔
اس شعر میں شاعر زندگی کی خوشیوں کو لمحاتی طور پر غنیمت سمجھنے کی دعوت دیتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ شعر خوشحال خان خٹک کی فلسفیانہ سوچ اور زندگی کی مختصر مدت کا احساس بھی ظاہر کرتا ہے۔
شاعرمحتسب اور مذہبی رویوں پر طنز کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ محتسب اور شیخ و ملا کی منافقت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئیے کہتے ہیں:
چی لہ یارہ سرہ مست د گلو گشت کڑم
محتسب کہ را نیزیدی شی پائے زار شتہ
کھوار: ہیہ دنیا اوا تان دوستو دوستیو وجھین دیتی محوِ گل گشت بیتی اسوم، محتسبو دیتی داڑئیکو بچے مہ سوم کرمیچ موجود شیر۔
خٹک کہتے ہیں:
شیخ ملا دے زما غم پہ بہار نہ خوری
چی رباب اؤ سریندے غوندے غم خوار شتہ
کھوار: شیخ اوچے ملاگانن بوسونو وختہ مہ بچے فکرمن بیکو ہچ کیہ ضرورت نیکی کوریکو کہ مہ غمان دودیری کوریکو بچے رباب اوچے سارنگیو غون غم خوار موجود شینی۔
یہ شعر خوشحال خان خٹک کے اس وقت کے مذہبی طبقے کی بے عملی اور دوہرے معیار پر شاعر کے طنزیہ خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔ خوشحال خان خٹک کا یہ انداز ان کی باغیانہ طبیعت کا مظہر دکھائی دیتا ہے۔
خٹک شراب و سرود اور آزاد خیالی کا بھی ذکر کرتا ہے۔شاعر نے اپنی آزاد خیالی کا برملا اظہاریوں کیا ہے:
نہ بہ زہ د میو جام کیگدم د لاسہ
نہ زما د پارسائیہ سرہ کار شتہ
کھوار: نہ اوا شرابو پیالو تان ہوستہ گانیم وا نہ مہ پرہیزگاریاریو سوم کیہ سرو کار شیر۔
خٹک کا یہ رویہ ان کی شخصیت کے بے باک پہلو کو اجاگر کرتا ہے، جہاں وہ روایتی بندشوں کو مسترد کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور اپنی راہ خود متعین کرتے ہیں۔ خوشحال خان خٹک کہتے ہیں:
ما وَ خپلے پارسائی تہ رخصت ور کڑ
پہ دا نورو پارسایانو مے اوس ڈار شتہ
کھوار: اوا تان پرہیزگاریوتے چیٹی دیتی اسوم ، لیکن دیگر پرہیزگارانن (اوشوپیکو خیال مہ ہردیا) موجود شیر۔
شاعر کہتے ہیں:
ساقی بیا زما د شہر خبر واخلہ
لا یؤ سو پہ کوسو پاتے پرہیز گار شتہ
کھوار: اے ساقی مہ شہرو پھوک خبارو گنے لا، کہ ہانیسے گلی اوچے کوچاہین ای کما پرہیز گار دی باقی بہچی اسونی۔
خوشحال خان خٹک کہتے ہیں:
گل مل، ساز و سرود، ساقی سرے سترگے
لا بہ ڈیر عالَم رسوا کا چی دا چار شتہ
کھوار: گمبوریو اوچے نرگس، ساز اوچے سرود، ساقیو کروئے غیچھ اگر ہیہ صورت حال کی بہچیتائے تھے بو زیات روئے رسوا بونی۔
شاعر کہتا ہے کہ:
چی پہ ہرہ پیالہ عقل زما زدوئی
د ساقی منت را باندے پہ بار بار شتہ
کھوار: کیاوتکہ ہر پیالہ مہ عقلو سوری غیری مہ ہوشو گانیران تھے ہے وجھین دیتی اوا ساقیو ہمیش احسان من بہچومان ۔
خٹک کہتے ہیں کہ:
د گلونو پہ موسم کے خوار ہغہ دے
چی ئے نہ پیالہ پہ لاس نہ ئے نگار شتہ
کھوار:فصلِ گلا خوار ہتے موش اسور کی کوس کی ہوستہ نہ جام شیر نہ ہتو کیہ نگار شیر
خوشحال خان خٹک کہتے ہیں کہ:
نن ہغہ شاہِ جہان د زمانے دے
چی دستہ ئے د گلونو پہ دستار شتہ
کھوار:ہنون ہتے زمانو ’شاہجہانِ ‘ موجود اسور کوس کی پھگڑیا گلدستہ لیگی شیر۔
خٹک کی شاعری میں زندگی کی عارضی خوشیوں کا احساس بھی موجود ہے۔ آخری اشعار میں شاعر زندگی کی عارضی خوشیوں کو غنیمت سمجھنے کی تلقین یوں کرتے ہیں:
نن خوشحالہ! د زڑہ داد د عشرت ور کڑہ
دا سو ورزے غنیمت دی سو گلزار شتہ
کھوار:ہنون اے خوشحالؔ ہردیاری عیش کوریکو بچے شاباشی گانے جما، ہمی ای کما بس تہ بچے غنیمت شینی اگر گرزینو سورا بوسونی گیتی شیر۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ خوشحال خان خٹک کی اس پشتو غزل اور کھوار تراجم میں ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ فطرت سے محبت، آزاد خیالی، مذہبی منافقت پر طنز اور زندگی کی خوشیوں کی قدردانی جیسے موضوعات ان کی شاعری کو نہ صرف دیگر پشتون شعرا سے انفرادیت بخشتے ہیں بلکہ ان کے عہد کے پشتو ادب اور سماج کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔
خٹک کی یہ پشتو غزل ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم زندگی کے حسین لمحات کو غنیمت سمجھیں اور اپنی راہ خود متعین کریں، چاہے وہ سماجی بندشوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔