"خودی: قرآن فہمی کا ایک ضابطہ": تجزیاتی مطالعہ

“خودی: قرآن فہمی کا ایک ضابطہ”: تجزیاتی مطالعہ

ڈاکثر رحمت عزیز خان چترالی*

پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان کی کتاب “خودی: قرآن فہمی کا ایک ضابطہ” اقبالیات اور قرآن فہمی پر ایک ایسی علمی اور تحقیقی کاوش ہے جس میں علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کو قرآنی فکر کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ محققّ نے کتاب کو اپنے استاد ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کے نام منسوب کیا ہے، جو ان کے علمی و فکری ارتقاء میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ کتاب کا پیش لفظ مصنف نے خود لکھا ہے، جس میں اقبال کی فکر اور قرآنی اجتہاد کو عصری مسائل کے حل کے لیے ایک بنیاد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

یہ کتاب علامہ اقبال کے خطبات “تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ” سے ماخوذ فلسفیانہ مباحث کو قرآن کے دائرے میں لا کر ان کی عملی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے، جن میں خودی کو قرآن کے ایک اجتہادی اصول کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مصنف نے خطبات کے تمام مباحث کو قرآنی اجتہاد کے پیرائے میں ترتیب دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآنی آیات کو بھی موضوع کے لحاظ سے منتخب کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو اقبال کی فکر اور اس کی قرآنی جڑوں کا مکمل ادراک ہو سکے۔

پیش لفظ میں ڈاکٹر عارف خان نے فلسفہ اقبال کی بنیاد پر قرآن فہمی کے اصول وضع کیے ہیں۔ انہوں نے اقبال کے فلسفہ خودی کو قرآنی اجتہاد کے لیے ایک اہم عنصر قرار دیا ہے۔ اقبال کی یہ سوچ کہ مذہب کو فلسفہ جدید کی کسوٹی پر پرکھا جائے، کتاب کا مرکزی نکتہ ہے۔ مصنف کا ماننا ہے کہ اقبال کے خطبات میں پیش کیے گئے اصول آج کے دور میں بھی قرآنی فکر کی طرف جدید ذہن کو راغب کرنے کے لیے لازمی ہیں۔
کتاب کے اہم پہلو ہیں جن میں سب سے اہم پہلو اقبال کا تصور خودی ہے۔ مصنف نے خودی کو قرآن کے ایک اجتہادی اصول کے طور پر بیان کیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی ہے کہ خودی خدا سے روانی لیتی ہے اور اس کا مقصد انسان کو خدا کی پہچان کے قریب لے جانا ہے۔ یہ ایک متحرک اور لامحدود قوت ہے جو انسان کو عملی زندگی میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
کتاب میں قرآنی اجتہاد کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عارف نے اقبال کی فکر کے ذریعے اجتہاد کے تصور کو نمایاں کیا ہے۔ وہ اجتہاد کو محض فقہ تک محدود نہیں رکھتے بلکہ اسے عصری مسائل کے حل کے لیے قرآن کے اصولوں کی روشنی میں استعمال کرنے پر زور دیتے ہیں۔
علم اور وحی کے تعلق کے بارے میں بھی کتاب میں مواد موجود ہے۔ کتاب میں استقرائی اور استخراجی طریقوں کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور ان کے ذریعے قرآنی تعلیمات کو جدید دنیا کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے علم کے مختلف ذرائع کو قرآن کے دائرے میں لا کر ان کی تشریح کی ہے۔

مصنف نے اقبال کے ساتوں خطبات کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے۔ ہر خطبے کے مباحث کو قرآنی اصولوں کے تحت ترتیب دیا گیا ہے، جو ایک منفرد اور علمی اور تحقیقی کام ہے۔

ڈاکٹر محمد عارف خان کی یہ کتاب نہ صرف علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کو سمجھنے کے لیے اہم ہے بلکہ یہ قرآنی فکر کو جدید زندگی کے مسائل کے ساتھ جوڑنے کی ایک کامیاب کوشش بھی ہے۔ مصنف کا طرز تحریر مدلل اور منطقی ہے، جو قارئین کو فلسفہ اقبال اور قرآن فہمی کے اصولوں کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

یہ کتاب اقبال کے فلسفے کے مطالعے میں ایک نئی جہت فراہم کرتی ہے۔ خاص طور پر ان قارئین کے لیے جو اقبال کے فلسفہ خودی کو قرآن کے تناظر میں سمجھنا چاہتے ہیں، یہ کتاب ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ مصنف نے اقبال کی فکر کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا ہے، جو ایک قابل تحسین عمل ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ “خودی: قرآن فہمی کا ایک ضابطہ” ایک ایسی کتاب ہے جس میں اقبال کی فکر اور قرآنی تعلیمات کے امتزاج کو پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد عارف خان نے اپنی تحقیق اور مدلل انداز تحریر کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ اقبال کا فلسفہ نہ صرف نظریاتی ہے بلکہ عملی زندگی کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ کتاب قرآنی فکر، اجتہاد، اور اقبال کے فلسفہ خودی کو سمجھنے کے لیے ایک بنیادی حوالہ ہے۔ میں کتاب کی اشاعت پر صاحب کتاب اور پبلشر ادارہ ثقافت اسلامیہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

اپنا تبصرہ لکھیں