معاشرے کو خواتین بارے رویئے کو تبدیل کرنا ہوگا،ڈاکٹر لوئے شبانے

معاشرے کو خواتین بارے رویئے کو تبدیل کرنا ہوگا،ڈاکٹر لوئے شبانے

کوئٹہ..اقوام متحدہ اور حکومت بلوچستان کے نمائندوں نے کم عمری کی شادی کو خواتین کے حقوق سلب کرنے سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کم عمری کی شادی بچیوں سے انکے جائز حقوق چھین لیتی ہے اورانہیں جسمانی و ذہنی طور پر سنگین مسائل درپیش ہوتے ہیں معاشرے کو خواتین کے حوالے سے اپنے رویئے کو تبدیل کرنا ہوگا۔یہ بات ملکی نمائندہ یو این ایف پی اے پاکستان ڈاکٹر لوئے شبانے، آئی جی پولیس بلوچستان معظم جاہ انصاری،سیکرٹری صحت مجیب الرحمن نے کوئٹہ میں اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ بلوچستان ( UNFPA) کے زیر اہتمام کم عمری کی شادی سے متعلق مختصر دورانیے کی فلم کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔تقریب میں سیکرٹری پاپولیشن ویلفیئر عبداللہ خان ، صوبائی سربراہ یو این ایف پی اے بلوچستان سعدیہ عطا ، ٹیکنیکل اسپیشلسٹ یو این ایف پی اے ڈاکٹر سرمد سعید خان ، یو این ایف پی اے اسلام آباد کے نمائندگان اور مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے خواتین و مرد حضرات نے شرکت کی۔ملکی نمائندہ یو این ایف پی اے پاکستان ڈاکٹر لوئے شبانے نے ہر لڑکی کے صحت مند ، بااختیار زندگی کے حق کے تحفظ کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت پر زور دیااوریو این ایف پی اے کی فلم ‘سلمیٰ میں پاکستان میں کم عمری کی شادی کے خاتمے کی فوری ضرورت پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ کم عمری کی شادی صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ یہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے میڈیا کی طاقت کے ذریعے ہم کم عمری کی شادی کے خلاف لاتعداد لڑکیوں کی آوازوں کو بڑھاتے ہیں اور ایک ایسے مستقبل کی وکالت کرتے ہیں جہاں وہ ترقی کر سکیںکم عمری کی شادی کے اثرات اور اس کے خاتمے کے لیے مختلف پہلوؤں پر ایک ماہرین نے پینل ڈسکشن بھی کیا گیا۔ آئی جی پولیس بلوچستان معظم جاہ انصاری نے کہا کہ کم عمری کی شادی کے خلاف معاشرتی آگاہی ضروری ہے،بچیوں کی کم عمری میں شادی کرکے اسکے تعلیم جیسے حقوق چھین لیے جاتے ہیںشعور کے فقدان کی وجہ سے کم عمری کی شادی میں اضافہ ہو رہا۔سیکرٹری صحت مجیب الرحمن نے کہا کہ کم عمری کی شادی نہ صرف بچیوں کی ذہنی اور جسمانی صحت بلکہ بچوں کی پیدائش کے دوران صحت کی کے لیے سنگین خطرات اور پیچیدگیوں کا سبب بنتی ہے، بلکہ یہ معاشرتی رویوں اور روایات کی عکاسی بھی کرتی ہے ، کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لیے قانونی ، طبی اور سماجی سطح پر آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں