ڈاکٹر ولا جمال العسیلی کا افسانہ جمیلہ کا تجزیاتی مطالعہ

ڈاکٹر ولا جمال العسیلی کا افسانہ جمیلہ کا تجزیاتی مطالعہ

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭

ڈاکٹر ولا جمال العسیلی کا تعلق مصر سے ہے، اردو زبان کی شاعرہ، ادیبہ ، اردو کی پروفیسر اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا افسانہ “جمیلہ” نسوانی شعور، سماجی جبر اور آزادی کے خوابوں کی بہترین کہانی ہے۔ اس افسانے میں مصنفہ نے ایک عورت کی داخلی کشمکش، اس کی محرومیوں اور اس کے جذباتی انتشار کو نہایت باریک بینی سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر جمال کہانی کا آغاز یوں کرتی ہیں ”صبح کے چھ بج رہے تھے۔ جمیلہ نے گھڑی کی ان سوئیوں کی طرف دیکھا جو مستقل گھومتی رہتی ہیں۔ جو مدہم ابہام میں عدم کی طرف لے جاتی ہیں۔ جمیلہ نے گھڑی سے نظریں ہٹا کر کھڑکی کی طرف دیکھا،تو اسے ہوا سے ہلتے درخت دکھائی دئے۔ اس نے اپنے آپ سے کہا :’یہاں تو درخت بھی پھل دیتے ہیں اور وقت کے ساتھ بلتے بھی ہیں اور میں اب بھی وہی ہوں جیسی تھی ۔ میرے اندر کوئی نئی بات یا تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔ ایسا لگتا ہے کہ میں بالکل اپنی ماں کی طرح بنتی جا رہی ہوں، جو صرف اتنا کر سکتی تھی کہ بوڑھی ہو جائے۔لکھنے پڑھنے سے عشق کے باوجود جمیلہ مردوں کی طرح آزاد ہونے کی خواہش پوری کرنے سے تھک چکی تھی۔ وہ جو چاہتی ہے، لکھ نہیں پاتی، جو محسوس کرتی ہے، اس کا اظہار نہیں کر سکتی ۔معاشرہ شرم وحیا کے نام پر کنٹرول کرتا ہے، لہٰذا وہ الفاظ کو اپنے سینے میں دبا نے اور انہیں روشنی میں نہ لانے پر مجبور تھی۔ اس کی سمجھ سے باہر تھا کہ معاشرہ عورت کی فطرت کو کیسے سمجھے گا اور کب تک وہ ہر لفظ ، ہر احساس اور ہر خواہش کو دفن کرتی رہے گی۔ وہ سوچتی رہتی تھی کہ کیوں روایات کے مطابق عورت اپنے والدین کے گھر میں پرورش پاتی ہے۔ پھر اس کی شادی ہو جاتی ہے، وہ اپنے ساتھ ان روایات کو لے جاتی ہے۔ ان پر قائم رہتی ہے اور اپنے احساسات کو دفن کرتی رہتی ہے ۔یہاں تک کہ اس کا جسم مٹی میںدفن بھی ہو جاتا ہے۔ بار بار اس کے اندر سے آوازآتی کہ میں احساسات کے بغیر نہ جینا چاہتی ہوں نہ مرنا۔ میں مردوں کی طرح آزاد کیوں نہیں ہوں کہ ہر لفظ، ہر احساس، اور ہر شعور لکھ کر بیان کرسکوں؟”۔
افسانہ “جمیلہ” عورت کے سماجی کردار، جذباتی ضروریات اور تخلیقی آزادی کے درمیان تصادم کی کہانی ہے۔ جمیلہ ایک ایسی عورت ہے جو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اظہار دینے کے لیے بےچین ہے لیکن سماج کے روایتی اصول اسے ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔ یہ کہانی نہ صرف ایک فرد کی جدوجہد کو بیان کرتی ہے بلکہ مجموعی طور پر مشرقی معاشروں میں عورت کی حیثیت پر سوال اٹھاتی ہے۔ مصنفہ لکھتی ہیں ”جمیلہ نے اپنے آپ سے ہی اونچی آواز میں یوں سوال کیا کہ جیسے وہ کسی سے بات کر رہی ہے۔ ایسے ہی خیالات ہر شب اسے سونے سے پہلے اور جاگنے کے بعدہمیشہ اس کے ذہن کو منتشر کرتے رہتے تھے۔ وہ لکھنا چاہتی تھی، لوگوں کو خوش کرنے کے لیے نہیں.. صرف سورج اور چاند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے نہیں. بوریت، تھکاوٹ، یا تنازعہ پیدا کرنے کے لیے نہیں.. صرف تعریف حاصل کرنے اور مریخ کو چھونے کے لیے نہیں… کوئی وضاحت اور جواز پیش کرنے کے لیے نہیں.. صرف اپنے اور اپنے بارے میں نہیں … وہ اس وقت لکھنا چاہتی تھی جب اس کی روح بے چین ہو اور دماغ کی نسیں پھٹ رہی ہوں.. جب وہ تناؤ اور غصے کا شکار ہو۔ جب وہ اچانک پرجوش ہو جاتی تھی.. جب اس کے دل میں کسی کے لئے پیار امڈ پڑتا تھا، جب وہ خوش ہوتی.. جب وہ اپنے سائے اور اپنی آواز کی بازگشت پر قابو نہیں رکھ پاتی تھی.. جب حقیقت تخیل کے جنون کے سامنے الجھ جاتی.. جب اس کی انگلیاں چیخ اٹھتی تھیں کہ مجھے قلم چاہیے.. جب وہ لکھے بغیر آرام سے سو نہیں پاتی تھی۔۔۔۔ جب ایک خالی سفید کاغذ اس کو مشتعل کر دیتا۔۔۔ وہ لکھنا چاہتی تھی جب اسےمحسوس ہوتا کہ اس کے آس پاس موجود ہر شخص اسے پکار رہا ہے اوراس سے لکھنے کی درخواست کر رہا ہے۔صبح کے سات بج چکے تھے اور وہ ابھی تک اپنے بستر پر پڑی سوچ رہی تھی.. اچانک اس کی بلی اس کے پاس کود پڑی، پھر اس کے پیٹ پر چڑھ گئی اور (مو مو ) کیا ۔۔۔ گویا اسے کہہ رہی تھی، میں تمہارے ساتھ ہوں، میں تمہیں سمجھتی ہوں اور میں تم کو محسوس کرتی ہوں”۔
جمیلہ کا کردار ایک ایسی عورت کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنی شناخت کے لیے جدو جہد کر رہی ہے۔ وہ لکھنا چاہتی ہے، اپنے جذبات اور خوابوں کو بیان کرنا چاہتی ہے، لیکن سماج کے جبر نے اسے خاموش رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جمیلہ کی ماں ایک روایتی عورت کی علامت ہے جو معاشرتی اصولوں کو اپنی زندگی کا حصہ مان چکی ہے اور اپنی بیٹی سے بھی اسی کی توقع رکھتی ہے۔ ڈکٹر ولا جمال رقمطراز ہیں ”جمیلہ نے اپنی بلی کی طرف دیکھا اور اسے اپنی گود میں لے لیا، پھر اس سے مخاطب ہوکر کہا، ’میں تیری طرح ہوں، میں جو محسوس کرتی ہوں اس کا اظہار نہیں کر سکتی۔ میں ایک لڑکی ہوں، اس لیے مجھے بولنے یا لکھنے کا حق کوئی نہیں دیتا۔ وہ بس زندگی جینے کے لئے یہ چیزیں مجھے دیتے ہیں جیسے کھانا پینا اور لباس پہننا ۔۔۔ گویا میں ایک ایسا جانور ہوں جس کا دماغ نہیں ہے ۔۔ گویا کہ میرا وجود صرف بھوک اور شادی تک محدود ہے۔‘بلی نے جمیلہ کی چھاتی سے خود کو آزاد کیا اور بستر سے اُتر کر کمرے سے باہر بھاگی۔شاید اس کی بات پر بلی کو غصہ آگیا۔ جمیلہ طنزیہ انداز میں سوچ رہی تھی کہ کیایہ بلی بھی لوگوں کی طرح حقائق بیان کرتے ہوئے غصے میں آجاتی ہے؟ اکثر لوگ وہم میں جینا پسند کرتے ہیں ، سچائی سننا پسند نہیں کرتے۔ پھرجمیلہ سیدھی ہو کر بستر پر بیٹھ گئی اور پاس کی میز سے کاغذ اور قلم اٹھایا اور سوچنے لگی۔کیا ہوگا اگر میں وہی لکھوں جو میں محسوس کرتی ہوں، میں اس خواب کے بارے میں لکھوں گی جو میں نے سوتے ہوئے دیکھا تھا ۔۔۔۔ اس نے قلم اور کاغذ اٹھایا اور پھر تاخیر کئے بغیر وہ اپنے خواب کے واقعات لکھنے لگی”۔
افسانے کی فضا گھٹن اور بےچینی سے بھرپور ہے۔ جمیلہ کی سوچ، اس کے جذبات اور اس کی تخلیقی خواہشات قاری کو ایک داخلی سفر پر لے جاتی ہیں۔ صبح کے وقت کا ذکر، درختوں کا ہلنا اور بلی کا کردار افسانے میں نہایت علامتی حیثیت رکھتے ہیں جو جمیلہ کی داخلی کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ مصنفہ لکھتی ہیں ” ’وہ میرے قریب آیا، یہاں تک کہ اس کی گرم سانسوں نے میرے چہرے اور گردن کی دودھیا جلد کو بھڑکا دیا۔ ۔۔ اس کی مردانہ خوشبو اس کے عطر کی خوشبو میں پیوست ہو گئی، جسے میں اپنے حواس کو بھرتی ہوئی پسند کرتی ہوں۔ وہ خاموشی سے میرے بالوں پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگا، وہ میری قربت سے اور میری مخصوص گلاب کی خوشبو سے (جو ہمیشہ مجھ سے پھوٹتی ہے) لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اپنی انگلیوں سے میری نرم جلد کو چھونے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ انتہائی عرق ریزی اور لطف اندوزی کے ساتھ میری گھومتی آنکھوں کی لرزش میں کھویا جا رہا تھا۔ پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی قربت میرے لئے کس قدر الجھن اور تناؤ کا باعث بنتی ہے۔ اس کی مجھ سے قربت کی وجہ سے جس قدر الجھن اور تناؤ پیدا ہوا، وہ تقریباً قسم کھانے جا رہا تھا کہ وہ میرے دل کی دھڑکنوں کو اور میری بے ترتیب سانسوں کی رفتار کو سن سکتا ہے۔ اس وقت میرے دل کی دھڑکنیں سمندر کی اونچی لہروںکی مانند تھیں اور پسینے کے سادہ موتی میری پیشانی پر نمودار ہونے لگے تھے۔ میری نبض زور سے دھڑکنے لگی، وہ اور زیادہ قریب آیا،میرے بھڑکتے ہوئے جذبات نے زور پکڑا تو میں نے گھبرا کر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔میں جانتی ہوں کہ میرے جذبات ہمیشہ اس کی قربت میں مجھ پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ ایسا جذبہ جو میں نے کسی دوسرے شخص کے ساتھ محسوس نہیں کیا۔ میں اس کے بوسے کا ذائقہ کبھی نہیں بھولوں گی۔۔۔۔‘ وہ یہیں تک لکھ سکی تھی کہ اس کی ماں کی آواز آئی،جمیلہ۔
جمیلہ نے جواب دیا: جی ماں، آ رہی ہوں۔ ماں کی آواز پھر کچن سے آئی اور بولی : تم کب تک سوتی رہو گی، اٹھو، آؤ اور ناشتہ بنانے میں میری مدد کرو۔ جی ماں.. میں آ رہی ہوں۔ اس نے بستر سے نکلتے ہوئے کہا، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اس نے جو لکھا ہے وہ اچھی طرح سے تکیہ کے نیچے چھپا ہوا ہے۔ اور اسے کوئی دیکھ نہیں پائے گا۔ اس نے اپنا منہ دھویا اور پھر ناشتہ بنانے میں اپنی ماں کی مدد کرنے کے لیے کچن میں چلی گئی۔ جمیلہ جیسے ہی کچن میں داخل ہوئی تو اس کی ماں نے اس سے کہا کہ آج ہمیں گھر میں بہت کام ہیں، میں آج ناشتہ بنانے کے لئے تم کو اکیلے چھوڑ دیتی ہوں اور گندے کپڑے واشنگ مشین میں ڈال دیتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ جب میں آؤں تو سب کچھ تیار ہو جائے۔ تم سمجھیں؟ ماں یہ کہہ کر کچن سے نکل گئی”۔
افسانے میں گھڑی کی سوئیاں وقت کے گزرنے اور زندگی میں تبدیلی نہ آنے کی علامت کے طور پر شامل کی گئی ہیں۔درخت، زندگی اور نشوونما کی علامت ہیں جو جمیلہ کی زندگی میں موجود نہیں۔بلی، جمیلہ کی بے زبانی اور جذبات کے اظہار کی خواہش کی علامت کے طور پر کہانی کا حصہ بنی ہے۔ قلم اور کاغذ تخلیقی آزادی اور اظہار کا ذریعہ ہیں۔ ڈاکٹر ولا جمال لکھتی ہیں ”جب جمیلہ ناشتہ بنانے میں مصروف تھی، تو اس نے اپنے آپ سے کہا: اے خدا، میں نے جو کاغذ لکھ کے تکیے کے نیچے رکھا ہے کہیں اس پر ماں کی نظر نہ پڑ جائے۔ وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی ۔ اس کے دل کی دھڑکن خوف سے تقریباً رک سی گئی، جب اس نے دیکھا کہ اس کی ماں گندی چادریں بدل رہی ہیں۔ جمیلہ کے پیروں کے نیچے سے اس وقت زمین کھسکنے لگی اورپیر تھر تھر کانپنے لگے، اس کے حواس جاتے رہے ،جب اس نے اپنی تحریر کو اپنی ماں کو پڑھتے ہوئے پایا۔اس کی ماں نے غصہ بھری آواز میں چیخ کر پوچھا: یہ کیا ہے؟ اور یہ شخص کون ہے؟ بولو ۔۔۔اس لمحے، جمیلہ نے محسوس کیا کہ اچانک صبح گہری رات میں تبدیل ہوگئی ہے ۔ اسے لگا کہ اس کو چکر نہیں آرہا ہے بلکہ زمین کی گردش تیز ہوگئی ہے۔ وہ اپنے ایک خواب کو ماں کی نظر میں حقیقت بنتے دیکھ کر شرمسار تھی اور اس کے کانپتے ہونٹوں میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ جواب دے سکتی”
مصنفہ کا اسلوب فلسفیانہ اور تخلیقی ہے۔ جمیلہ کے جذبات اور خیالات کو بیان کرنے کے لیے تفصیلی اور علامتی زبان استعمال کی گئی ہے۔ بیانیہ کا انداز داخلی ہے جو قاری کو جمیلہ کی ذہنی کیفیت کے قریب لے آتا ہے۔
کہانی میں نسوانی شعور کی بھر پور انداز میں عکاسی کی گئی ہے۔”جمیلہ” نسوانی شعور کا نمائندہ افسانہ ہے۔ یہ کہانی عورت کی داخلی دنیا، اس کے خوابوں اور سماجی جبر کے خلاف اس کی جدوجہد کو اجاگر کرتی ہے۔ جمیلہ کا یہ سوال کہ “میں مردوں کی طرح آزاد کیوں نہیں ہوں؟” اس افسانے کا مرکزی نکتہ ہے جو صنفی مساوات کے موضوع کو نمایاں کرتا ہے۔
افسانہ قاری کو اس بات پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ ایک عورت کی زندگی صرف روایات اور ذمہ داریوں تک محدود کیوں ہے؟ اسے اپنے جذبات اور خوابوں کو بیان کرنے کا حق کیوں نہیں دیا جاتا؟
افسانہ اپنی فنی اور فکری جہتوں میں مضبوط ہے۔ تاہم کچھ مقامات پر جمیلہ کے خیالات کی تکرار قاری کو بوجھل کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ اس کے باوجود مصنفہ نے جمیلہ کے کردار کو اس کی تمام تر انسانی کمزوریوں اور خواہشات کے ساتھ بخوبی پیش کیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مصری مصنفہ ڈاکٹر ولا جمال العسیلی کا افسانہ “جمیلہ” ایک فکر انگیز اور دل کو چھو لینے والی کہانی ہے۔ اس کہانی میں افسانہ نگار نے نہ صرف ایک عورت کی اندرونی دنیا کی عکاسی کی ہے بلکہ سماجی جبر اور تخلیقی آزادی کے درمیان کشمکش کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ افسانہ قاری کو اس بات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ عورت کے جذبات، خواہشات اور خوابوں کو دبانے کے بجائے انہیں آزادی سے اظہار کا موقع دیا جائے۔ میں مصری مصنفہ ڈاکٹر ولا جمال العسیلی کو اردو زبان میں اتنی اچھی کہانی تخلیق کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں