مرزا غالب کی فارسی غزل کے اردو، پنجابی اور کھوار تراجم

مرزا غالب کی فارسی غزل کے اردو، پنجابی اور کھوار تراجم

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭

مرزا غالب فارسی اور اردو کے ممتاز شاعر گزرے ہیں ان کی شاعری کا کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں جن میں اردو، پنجابی، ہندی، انگریزی اور کھوار زبان شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں :
زمن گَرَت نہ بُوَد باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا
اس غزل کو نہ صرف فارسی زبان میں غالب کی فنی عظمت کا مظہر سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کے اردو، پنجابی، ہندی، انگریزی اور کھوار تراجم نے اس کی جمالیات کو مختلف زبانوں میں منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مرزا غالب کی فارسی غزل کا یہ مصرع “زمن گَرَت نہ بُوَد باور انتظار بیا” ایک شاہکار تخلیق ہے جس میں شاعر محبت، فراق، وصال اور روحانی تجربات کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا ہے۔ یہ غزل نہ صرف غالب کی شاعری کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ ان کی فلسفیانہ سوچ اور جذباتی اظہار کو بھی نمایاں کرتی ہے۔
صوفی تبسم نے مرزا غالب کے اس فارسی غزل کا پنجابی میں منظوم ترجمہ کیا ہے جس نے اس کے اثر کو پنجابی قارئین کے لیے عام فہم اور دلکش بنا دیا ہے۔ پنجابی ترجمہ نہ صرف زبان کی شیرینی اور مقامی رنگ کو نمایاں کرتا ہے بلکہ غالب کی شاعری کی روح کو بھی محفوظ رکھتا ہے مثال کے طور پر یہ فارسی شعر ملاحظہ کیجیے:
“وداع و وصل جداگانہ لذّتے دارَد”
پنجابی:
“بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووے، وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں”
صوفی تبسم کا مرزا غالب کے شعر کا یہ ترجمہ پنجابی ثقافت کی محبت بھری فطرت کو اجاگر کرتا ہے۔
اردو ترجمہ میں حمید یزدانی کا ادبی کمال نظر آتا ہے۔حمید یزدانی نے اردو میں غالب کی اس غزل کو نہایت خوبصورتی سے منتقل کیا ہے۔ ان کا اردو ترجمہ غالب کے اصل پیغام کو اردو زبان کے حسن اور روانی کے ساتھ پیش کرتا ہے جیسے:
فارسی:”رواجِ صومعہ ہستیست، زینہار مَرَو”
اردو:”خانقاہوں میں غرور و تکبر کا رواج ہے، دیکھیو ادھر مت جائیو”
حمید یزدانی نے اپنے اس اردو ترجمے میں غالب کی تنقیدی فکر کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے اور مترجم قارئین کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہوا نظر آتا ہے۔
راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) نے غالب کی اس غزل کو کھوار زبان میں منتقل کیا ہے جو چترال، مٹلتان کالام (سوات) اور گلگت بلتستان کی کھوار کمیونٹی کے لیے ایک اہم ادبی خدمت ہے۔ کھوار ترجمہ میں مرزا غالب کی شاعری کو مقامی زبان کے منفرد اسلوب میں پیش کیا گیا ہے مثلاً:
فارسی:”حصار عافیَتے گر ہوس کُنی غالب
چو ما بہ حلقۂ رندانِ خاکسار بیا”
کھوار:”اے مرزا غالب اگر تتے کیہ عافیتو نوغورو کی خواہش شیر، تھے مہ غون رندانِ خاکساران محفلہ گئیے لا”۔
یہ ترجمہ غالب کے پیغام کو کھوار زبان کے قارئین تک پہنچانے کی ایک عمدہ کوشش ہے۔
ہر مترجم نے مرزا غالب کی غزل کو اپنی زبان کی ثقافت اور مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ پنجابی ترجمہ محبت اور جذباتیت کو ابھارتا ہے، اردو ترجمہ فلسفیانہ اور فکری گہرائی پیش کرتا ہے اور کھوار ترجمہ مقامی زبان کھوار کی انفرادیت کو اجاگر کرتا ہے۔
ان تینوں زبانوں میں کیے گئے تراجم کے باوجود مرزا غالب کی شاعری کی اصل روح اور جمالیاتی خوبصورتی برقرار رہی ہے۔ یہ مترجمین کی مہارت اور غالب کی شاعری کی آفاقیت کو ظاہر کرتا ہے۔
کچھ تراجم میں اصل الفاظ کے مفہوم کو مکمل طور پر منتقل کرنے میں چیلنجز نظر آتے ہیں خاص طور پر فارسی کے دقیق الفاظ اور اصطلاحات کا ترجمہ وغیرہ لیکن مترجمین نے اپنی مہارت سے فارسی سے خوبصورت تراجم کیے ہیں۔
مرزا اسد اللہ خاں غالب کی فارسی غزل اور اس کے مختلف پاکستانی زبانوں میں تراجم نے اس کی جمالیاتی اور فکری گہرائی کو پاکستان بھر کے قارئین تک پہنچایا ہے۔ یہ تراجم اردو، پنجابی اور کھوار ادب کے مختلف رنگوں کو اجاگر کرتے ہیں اور غالب کی شاعری کی عالمگیریت کو ثابت کرتے ہیں۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے مرزا اسد اللہ خاں غالب کی فارسی غزل، اردو، پنجابی اور کھوار تراجم پیش خدمت ہیں۔
فارسی:زمن گَرَت نہ بُوَد باور انتظار بیا
بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا
پنجابی ترجمہ:میرے شوق دا نہیں اعتبار تینوں، آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا
اینوں لڑن بہانڑے لبھنا ایں، کیہ توں سوچنا ایں سِتمگار آ جا
اردو ترجمہ:میں تیرے انتظار میں ہوں، اگر تجھے اس کا یقین نہیں ہے تو آ اور دیکھ لے۔ اس ضمن میں بہانے مت تلاش کر، بے شک لڑنے جھگڑنے کا طور اپنا کر آ۔
کھوار ترجمہ:اوا تہ اینتظارا اسوم، اگر تہ کی مہ لوو سورا یقین نیکی تھے گئیے گیتی لوڑے۔ ہے باریا بہنہ مو مشکے ، بے شک ایغو دیکو اوچے جنجال کوریکو بچے دی گئیے۔
فارسی:وداع و وصل جداگانہ لذّتے دارَد
ہزار بار بَرَو، صد ہزار بار بیا
پنجابی:بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووے ،وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں
میرے سوہنیا جا ہزار واری ،آ جا پیاریا تے لکھ وار آجا
اردو:فراق اور وصل دونوں میں اپنی اپنی ایک لذت ہے، تو ہزار بار جا اور لاکھ بار آ۔
کھوار ترجمہ:فراق اوچے وصلو کھاڑان تان تان ای الگ مزہ شیر، تو ہزار بار بوغے وا لاکھ بار اچی گئیے۔
فارسی:رواجِ صومعہ ہستیست، زینہار مَرَو
متاعِ میکدہ مستیست، ہوشیار بیا
پنجابی:ایہہ رواج اے مسجداں مندراں دا ،اوتھے ہستیاں تے خود پرستیاں نیں
میخانے وِچ مستیاں ای مستیاں نیں، ہوش کر، بن کے ہُشیار آ جا
اردو:خانقاہوں میں غرور و تکبر کا رواج ہے، دیکھیو ادھر مت جائیو، جبکہ میکدہ کی دولت و سرمایہ مستی ہے، وہاں ذرا چوکنا ہو کر آجا۔
کھوار ترجمہ:خانقاہین غرور اوچے تکھابور رواج شیر، ئیی لو ہے ژاغین مو بوغوے، جبکہ میکدو دولت اوچے سرمایہ مستی شیر، ہیرا پھوک خیال کوری بی گئیے۔
فارسی:تو طفل سادہ دل و ہمنشیں بد آموزست
جنازہ گر نہ تواں دید بر مزار بیا
پنجابی:تُوں سادہ تے تیرا دل سادہ، تینوں اینویں رقیب کُراہ پایا
جے تُوں میرے جنازے تے نہیں آیا، راہ تکدا تری مزار، آ جا
اردو:تو ایک بھولے بھالے بچے کی طرح ہے اور رقیب تجھے الٹی سیدھی پٹیاں پڑھا رہا ہے، سو اگر تو ہمارا جنازہ نہیں دیکھ سکا تو کم از کم ہمارے مزار پر ہی آ جا۔
کھوار ترجمہ:تو ای سیدھا سادہ پھوک ڈقو غون اسوس وا رقیب تتے غلط لوان دیتی تہ ناشیران، تھے اگر تو کی مہ جنازو پوشیکو نو بیتاو تھے کم از کم مہ مزارا تھے گئیے لا۔
فارسی:حصار عافیَتے گر ہوس کُنی غالب
چو ما بہ حلقۂ رندانِ خاکسار بیا
پنجابی:سُکھیں وسنا جے تُوں چاہو نا ایں میرے غالبا ایس جہان اندر
آجا رنداں دی بزم وِچ آ بہہ جا، ایتھے بیٹھ دے نیں خاکسار آ جا
اردو:اے غالب اگر تجھے کسی عافیت کے قلعے کی خواہش ہے تو ہماری طرح رندانِ خاکسار کے حلقہ میں آ جا
کھوار ترجمہ:اے مرزا غالب اگر تتے کیہ عافیتو نوغورو کی خواہش شیر تھے مہ غون رندانِ خاکساران محفلہ گئیے لا
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.comاور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں