ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
اقبال کہتے ہیں کہ
“کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں
غلام طغرل و سنجر نہیں میں
جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن
کسی جمشید کا ساغر نہیں میں”
شاعر مشرق حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی شاعری میں محبت رسول ﷺ ایک ایسا عنصر ہے جو ان کے کلام کو روحانی بلندی اور فکری گہرائی عطا کرتا ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق رسول ﷺ نہ صرف دین کی بنیاد ہے بلکہ دنیاوی کامیابی کا ذریعہ بھی ہے۔ ان کے اشعار میں یہ محبت ایک جذبۂ صادق کے طور پر جھلکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جو ان کے قلب و روح کی گہرائیوں سے پھوٹتی ہے۔ ارمغانِ حجاز میں آنحضرت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے حضور یوں عرض گزار ہیں “حضور ملت بیضا تپیدم
نوائے دل گدازے آفریدم
ادب گوید سخن را مختصر گوئے
تپیدم، آفریدم، آرمیدم
ترجمہ:میں ملت بیضا کے حضور تڑپتا رہا اور میں نے ایک گداز نغمہ اور صدا تخلیق کی۔ ادب کا تقاضا ہےکہ بات مختصر کی جائے۔ تو یوں کہیئے کہ میں تڑپا، میں نے تخلیق کیا اور میں چل بسا۔
اقبال کے نزدیک عشق رسول ﷺ ایمان کی اصل ہے اور انسان کی روحانی ترقی کا مرکز و محور بھی ہے۔ ان کے اشعار میں عشق رسول ﷺ کو ایسی قوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو انسان کو جبریل امین کے مقام تک پہنچا سکتی ہے مثلاً:
ہر کہ از سرّ نبی گیرد نصیب
ہم بہ جبریل امیں گردد قریب
در دل مسلم مقام مصطفیٰ است
آبروئے ما زنام مصطفیٰ است
زندہ تا سوز او، در جان تست
ایں نگہ دارندہ ایمان تست
اقبال کے ان اشعار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علامہ اقبال کے نزدیک عشق رسول ﷺ انسان کو نہ صرف دنیاوی بلکہ روحانی بلندیوں پر بھی لے جاتا ہے۔
علامہ اقبال نے 11 اکتوبر 1926 کو ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ “میں انگریزی، اردو، فارسی میں برنگ نثر بھی اپنے خیالات کا اظہار کرسکتا تھا لیکن یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ طبائع نثر کی نسبت شعر سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ لہذا میں نے مسلمانوں کو زندگی کے صحیح مفہوم سے آشنا کرنے، اسلام کے نقش قدم پر چلانے اور ناامیدی، بزدلی اور کم ہمتی سے باز رکھنے کے لیے نظم کا ذریعہ استعمال کیا۔ میں نے پچیس سال تک اپنے بھائیوں کی مقدور بھر ذہنی خدمت کی۔ اب میں ان کی بطرز خاص عملی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر رہا ہوں”۔
فقیر سید وحید الدین کی کتاب روزگار فقیر میں اقبال کی ذاتی زندگی میں عشق رسول ﷺ کے مظاہر کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق، اقبال رسول اللہ ﷺ کا نام سن کر بے قابو ہو جاتے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے۔ یہ کیفیت ان کی روحانی وابستگی اور عقیدت کا عملی اظہار تھا۔ فقیر سید وحید الدین “روزگارِ فقیر” میں رقمطراز ہیں “ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم کی سیرت اور زندگی کا سب سے زیادہ ممتاز، محبوب اور قابل قدر جذبہ عشق رسول ﷺ ہے۔ ذات رسالت مآب کے ساتھ انہیں جو والہانہ عقیدت تھی اس کا اظہار ان کی چشم نمناک اور دیدہ تر سے ہوتا تھا کہ جہاں کسی نے اُن کے سامنے حضور ﷺ کا نام لیا ان پر جذبات کی شدت اور رقت طاری ہوگئی اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ کا نام آتے ہی اور ان کا ذکر چھڑتے ہی اقبال بے قابو ہو جاتے تھے”۔
اقبال کے کلام میں عشق رسول ﷺ کی جھلک ہر جگہ موجود ہے۔ ان کی کتاب ارمغان حجاز میں “حضور حق” کے عنوان سے رباعیات اس محبت کا بہترین نمونہ ہیں۔ ایک رباعی میں وہ روز قیامت کے تصور کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ان کے گناہوں کی باز پرس رسول اللہ ﷺ کے سامنے نہ ہو تاکہ حضور ﷺ کو ملال نہ ہو مثلاً:
بہ پایاں چوں رسد این عالم پیر
شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر
مکن رسوا حضور خواجہ ما را
حساب من زچشم او نہاں گیر
ان اشعار میں اقبال کے عشق رسول ﷺ کی شدت اور ان کی امت کے لیے فکر و محبت کا اظہار ملتا ہے۔ فقیر سید وحید الدین لکھتے ہیں “اقبال کی شاعری کا خلاصہ، جوہر اور لب لباب عشق رسول ﷺ اور اطاعت رسول ﷺ ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کی صحبتوں میں عشق رسول ﷺ کے جو مناظر دیکھے ہیں ان کا لفظوں میں اظہار بہت مشکل ہے”۔
اقبال کے عشق رسول ﷺ کا عملی پہلو ان کی فکر میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ وہ امت مسلمہ کی اصلاح اور فلاح کے لیے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو مشعل راہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی محبت ہی وہ ذریعہ ہے جو امت کو اس کے کھوئے ہوئے مقام تک واپس لے جا سکتی ہے۔ فقیر سید وحید الدین لکھتے ہیں “ڈاکٹر صاحب کا دل عشق رسول ﷺ نے گداز کر رکھا تھا۔ زندگی کے آخری زمانے میں تو یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ گئ تھی کہ ہچکی بندھ جاتی تھی، آواز بھرا جاتی تھی اور وہ کئی کئی منٹ سکوت اختیار کر لیتے تھے تاکہ اپنے جذبات پر قابو پا سکیں اور گفتگو جاری رکھ سکیں”۔
علامہ اقبال کی شاعری میں محبت رسول ﷺ ایک ایسی روشنی ہے جو ان کے کلام کو ایک منفرد روحانی کیفیت عطا کرتی ہے۔ یہ محبت نہ صرف ان کی ذاتی زندگی میں نظر آتی ہے بلکہ ان کے اشعار میں بھی نمایاں طور پر موجود ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق رسول ﷺ انسان کی روحانی بلندی کا ذریعہ اور امت مسلمہ کی کامیابی کا راز ہے۔ ارمغان حجاز کی ایک رباعی میں کہتے ہیں “بآں رازے کہ گفتم، پے نبردند
ز شاخِ نخلِ من خرما نخوردند
من اے میر امم داد تو خواهم
مرا یاراں غزلخوانے شمردند
ترجمہ: جو اسرار میں نے قوم کے سامنے واشگاف الفاظ میں بیان کیے کسی نے نہ سمجھے میرے کھجور کے درخت سے کسی نے بھی تو اس کا میٹھا پھل نہیں کھایا۔ اے بادشاہِ کونین ﷺ میں آپ ہی سے انصاف چاہتا ہوں زرا دیکھئیے تو یاروں نے مجھے بھی ایک عام غزل گو شاعر سمجھ رکھا ہے۔
ان کی شاعری ہمیں یاد دلاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت ہی حقیقی ایمان کی بنیاد ہے اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بھی ہے۔ ڈاکٹر طاہر فاروقی لکھتے ہیں “ارمغان حجاز میں سب سے پہلے جو رباعیاں اور قطعات ہیں ان کا عنوان ہے “حضور حق”۔ ان میں دو رباعیاں آنحضرت ﷺ سے جس عقیدت کا اظہار کرتی ہیں وہ بے مثال ہے۔ ایک رہاعی میں فرماتے ہیں: جب یہ عالم اختتام کو پہنچے اور ہر پوشیدہ چیز آشکار ہو جائے اور اعمال کی باز پرس ہونے لگے تو اے رب العزت ! ہم گنہ گاروں کو سرکار دو عالم ﷺ کے حضور میں ذلیل و خوار نہ کیجیے۔ ہمارے اعمال بد کی پرسش آپ ﷺ کی نظروں سے چھپا کر کیجئے تاکہ آپ ﷺ کے دل میں یہ ملال نہ آئے کہ میری امت میں ایسے سیہ کار اور خطا کا بھی ہیں۔ ایسے میں ہم عاصیوں کو کیسی کچھ شرم نہ آئے گی کہ ہم آقائے دو جہاں کے ملال کا سبب ہے”۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔