ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
پاکستان میں ٹیکس کے دائرہ کار کو وسعت دینے اور ٹیکس چوری کے رجحان کو کم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے ٹیکس لاء ترمیمی بل 2024-25 قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔ اس بل میں نان فائلرز کے لیے سخت اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جن کا مقصد ٹیکس نظام میں شفافیت اور ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔
یہ بل کئی اہم پہلوؤں پر مشتمل ہے جن میں سب سے نمایان پہلو نان فائلرز پر پابندیاں لگانا ہے۔ بل کے تحت نان فائلرز پر 800 سی سی سے زائد گاڑیاں، مخصوص حد سے زیادہ جائیداد اور شئیرز کی خریداری پر پابندی ہوگی۔ یہ اقدام غیر رجسٹرڈ افراد کو ٹیکس نیٹ میںط لانے کے لیے اہم ہے۔ تاہم، اس پابندی سے متوسط طبقے کے افراد، جو فائلرز بننے کی استطاعت نہیں رکھتے، متاثر ہو سکتے ہیں۔
نان فائلرز کے لیے بینک اکاؤنٹ کھولنے اور مخصوص حد سے زیادہ ٹرانزیکشنز کرنے پر پابندی ہوگی۔ یہ اقدام مالیاتی شفافیت کے لیے مثبت ہے، لیکن اس سے چھوٹے کاروباروں کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے جو غیر رسمی معیشت میں شامل ہیں۔
بل کے مطابق غیر رجسٹرڈ کاروباری افراد کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جائیں گے جائیداد ٹرانسفر نہیں کر سکیں گے اور ان کی پراپرٹی حکومت سیل کرنے کی مجاز ہوگی۔ یہ اقدامات ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے موثر ہو سکتے ہیں، لیکن اس سے چھوٹے کاروباری طبقے میں بے چینی پیدا ہو سکتی ہے۔
سیلز ٹیکس رجسٹریشن نہ کرانے پر جائیداد کی منتقلی اور بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کی پابندی تجویز کی گئی ہے۔ تاہم رجسٹریشن کے دو دن بعد اکاؤنٹس کو ان فریز کرنے کی شق ایک مثبت پہلو ہے جو کاروباری افراد کے لیے سہولت فراہم کرے گی۔
بل میں فائلرز کے والدین، بیوی اور 25 سال تک کی عمر کے بچوں کو فائلرز تصور کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ اقدام ٹیکس دہندگان کے لیے ایک سہولت ہے، لیکن اس کے عملی نفاذ میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
نان فائلرز پر عائد کی جانے والی پابندیاں اور قوانین کی پیچیدگی عام شہریوں کے لیے سمجھنا مشکل ہو سکتی ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے عوامی آگاہی مہم چلانی چاہیے۔
یہ بل نان فائلرز کے لیے انتہائی سخت ہے، لیکن متوسط طبقے پر اس کے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ان کے لیے فائلرز بننے کا عمل آسان اور سستا بنایا جانا چاہیے تھا۔
پاکستان میں پہلے سے موجود ٹیکس قوانین پر عملدرآمد ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگر اس بل پر عملدرآمد مؤثر طریقے سے نہ ہوا تو یہ محض ایک رسمی قانون بن کر رہ جائے گا۔
پاکستان کی معیشت کا بڑا حصہ غیر رسمی ہے۔ اس بل کے ذریعے ان افراد کو رجسٹرڈ معیشت میں شامل کرنا ایک چیلنج ہوگا۔
2024-25 کا یہ بل ایک اہم اقدام ہے جو ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اور ٹیکس چوری کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ تاہم اس بل کے نفاذ میں شفافیت، عوامی آگاہی اور متوسط طبقے کے لیے سہولیات فراہم کرنا لازمی ہے۔ حکومت کو ان اقدامات پر عملدرآمد کے لیے ایک جامع حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی تاکہ یہ قانون مؤثر ثابت ہو اور معیشت پر مثبت اثر ڈالے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔