خونی آئینہ

خونی آئینہ

سیدہ پلوشہ ساجد(اسلام آباد)
اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ جنگل سے کیا اٹھا لائی ہے.جیسے ہی وہ گھر کے زینے میں داخل ہوئی ایک عجیب سے خوف نے اس کو آ گھیرا کہ اچانک ہی۔۔۔۔۔۔ناقابلِ تلافی نقصان سے بہتر ہے کچھ راز راز ہی رہیں۔
روشنی اپنے گھر کی اکلوتی بیٹی تھی اسے تنہا رہنے کی عادت تھی اس کے فادر گورنمنٹ ملازم شہر میں جاب کرتے تھے اور والدہ گھریلو خاتون تھی وہ اپنے انٹر کے امتحانات دینے کے بعد ان دنوں فارغ ہوا کرتی تھی۔ ماں کے ساتھ گھر میں ہاتھ بٹانے کے بعد وہ جنگل میں ادھر ادھر نکل جایا کرتی تھی۔ زیادہ دور جانے کی اسے اجازت نہیں تھی۔ اسے پیڑ پودوں،پرندوں سے باتیں کرنا مرغوب مشغلہ تھا۔ اپنے فارغ اوقات میں وہ پرندوں کو دانہ ڈالتی اور ان سے باتیں کیا کرتی تھی۔ان دنوں چونکہ اور کوئی اس کا مشغلہ نہیں تھا لہذا اسکا زیادہ وقت چمن بوا کیساتھ گزرتا۔چمن بوا کو اس نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے گھر میں دیکھا تھا۔
گویا کہ وہ چمن بوا کی گود میں پلی بڑھی۔
روشنی کو کہانی سننے کا بہت شوق تھا وہ اکثر چمن بوا سے کہانی سننے کی فرمائش کرتی۔
وہ آج پھر ضد کر رہی تھی۔ چمن بوا آج آپ سے کہانی سننی ہے۔
گھر کے کام کاج سے فراغت کے بعد چمن بوا نے کہا کہ روشنی آج میں تمہیں ایک سچی کہانی سناتی ہوں یہ واقعہ ہے جو میری نانی کے ساتھ پیش آیا۔ چنانچہ سارے کام نپٹا کر روشنی اور چمن بوا ایک ساتھ بیٹھ گئیں۔ چمن بوا کہنے لگی کہ یہ میرے بچپن کی بات ہے میری نانی جنگل میں جڑی بوٹی لینے جایا کرتی تھیں اور اسی سے ہمارے گاؤں کے لوگوں کا علاج ہوا کرتا تھا۔
شہر سے دور ہونے کی وجہ سے لوگ شہر بہت مشکل سے پہنچ پایا کرتے تھیلہذا ان کا علاج میری نانی جڑی بوٹیوں سے بنائی دوائی سے کرتیں۔اللہ نے ان کے ہاتھ میں شفا بھی بہت رکھی تھی۔ ایک دن میری نانی کو جنگل میں جڑی بوٹیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے دیر ہو گئی اور اسی اثناء میں رات ہو گئی۔ نانی رات گزارنے کے لیے کسی چھت کی تلاش کرنے لگیں تاکہ وہ رات گزار سکیں۔ چونکہ گاؤں بہت دور تھا اور رات کے وقت جنگل میں اتنا سفر کرنا آسان نہیں تھا۔ نانی کو ایک جھونپڑی دکھائی دی۔ نانی نے اس چوپڑی کے دروازے پر دستک دی اور پوچھا کہ کوئی ہے جواب میں کسی کی آواز سنائی نہ دی۔ وہ جھونپڑی بالکل خالی تھی۔تھوڑا سا دھکا دیا دروازے کو اور دروازہ کھل گیا۔جھونپڑی میں پڑا سامان گرد و آلود سے اٹا پڑا تھا۔تمام چیزیں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ اس گھر میں کافی عرصے سے کوئی نہیں رہ رہا۔ٹوٹی کھڑکیاں اور پردوں پہ لگے جالے اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ یہاں پہ نہ تو کبھی کوئی جانور آیا اور نہ ہی کسی انسان کا بسیرا ہوا۔اس کا مکین جب گیا تو پھر لوٹ کرنا آیا۔ میری نانی کو وہاں پر اور تو کوئی دلچسپ چیز معلوم نہ ہوئی۔ البتہ کسی چیز کے اوپر ایک پردہ پڑا ہوا تھا جس پر میری نانی کی نظر گئی میری نانی نے اس گرد آلود پردے کو جب ہٹایا تو اس کے پیچھے صاف شفاف انتہائی خوبصورت آئینہ نظر آیا۔ یہ آئینہ بہت قدیم لیکن انتہائی خوبصورت تھا کہ میری نانی اس کو وہاں سے لائے بغیر نہ رہ سکیں۔ لیکن اس آئینے کی بڑی عجیب بات تھی اس میں نانی کا عکس نظر نہیں آ رہا تھا۔ نانی نے اس بات کو نظر انداز کر کے آئنہ گھر لے آئیں۔ اور اپنے کمرے میں ایک کونے میں رکھ دیا۔ کچھ دنوں کے بعد میری نانی کی موت واقع ہو گئی۔ سارے گاؤں والوں کو خاندان سمیت نانی کی موت کا بہت دکھ تھا۔ کیونکہ نانی گاؤں کے لوگوں کی بہترین معالج جو تھیں۔ہمارا خیال اس آئینے کی طرف گیا ہی نا۔ مگر اس کے بعد نانی کے کمرے میں آئینہ نہ رہا۔ہم نے اسے بہت ڈھونڈا لیکن ہمیں نظر نہیں آیا۔ نا جانے وہ آئینہ کہاں چلا گیا۔
چمن بوا پھر اس کے بعد کیا ہوا۔ روشنی بوا سے پوچھنے لگی۔
پھر کیا ہونا تھا روشنی بی بی کہانی ختم۔
چمن بوا اسے کہنے لگیں۔
چمن بوا یہ کیسی کہانی ہوئی جس کا کوئی اختتام ہی نہیں۔اب ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ اس آئینے کے ساتھ کیا ہوا۔ وہ آئینہ کدھر گیا یہ کیا بات ہوئی یہ کیسی کہانی ہوئی بھلا۔ روشنی اصرار کر کے پوچھنے لگی
روشنی بی بی سچی کہانیوں کا کوئی اختتام نہیں ہوتا بس وہ ادھوری رہ جاتی ہیں۔
دن گزرتے گئے لیکن یہ کہانی روشنی کے دماغ سے نہ گئی۔ معلوم نہیں ایک دن اس کوکیا خیال سوجھا جو وہ جنگل میں دور نکل گئی۔ وہ ایک بہادر لڑکی تھی چلتے چلتے اسے ایک جھونپڑی نظر آئی۔ اس نے سوچا چونکہ میں راستہ بھول چکی ہوں تو کیوں نہ میں جو اس میں رہ رہے ہیں ان سے راستہ پوچھ لوں وہ اندر داخل ہوئی اسے کوئی نظر نہ آیا ہر چیز ایسے پڑی تھی جیسے یہاں سالوں سے کوئی نہ آیا ہو ہر طرف مکڑی کے جالے اور عجیب سا خوف طاری تھا ایک طرف پڑھے پردے نے اس کا دھیان اپنی طرف کھینچا اس نے جیسے ہی اسے ہٹایا تو اس کو خوبصورت آئینہ دکھائی دیا وہ حیران ہو گئی۔ اس کے ذہن میں بوا کی سنائی ہوئی کہانی گھومنے لگی۔ اسے اس آئینے میں اپنا عکس نظر نہیں آ رہا تھا۔
کہ اچانک کہیں سے کسی عورت کی آواز سنائی دی۔ بھاگ جاؤ بھاگ جاؤ۔ یہاں سے اسے مت اٹھانا بھاگ جاؤ یہاں سے پیچھے مڑ کے مت دیکھنا اسے کچھ سمجھ نہ آیا آئینے میں سے زور زور سے قہقہوں کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ خوف کے مارے جونپڑی سے نکلی اور دوڑتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ وہ اپنے گھر کی زینے پر پہنچ کر بے ہوش ہو گئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے خود کو اپنے گھر والوں کے درمیان پایا۔ اس نے آئینے کے بارے میں کسی کو کچھ نہ بتایا۔حتٰی کہ چمن بوا کو بھی شاید اس کی قسمت اچھی تھی جو وہ بچ گئی اور اس خونی آئینے کا راز راز ہی رہ گیا۔۔۔۔۔۔۔
اس نے سوچا چمن بوا سچ کہتی ہیں؟کیا واقعی سچی کہانیوں کا انجام ادھورا رہ جاتا ہے۔؟
ادھورا رہ جاتا ہے یا راز۔

اپنا تبصرہ لکھیں