عمران خان نوبل امن انعام کے لیے نامزد

عمران خان نوبل امن انعام کے لیے نامزد

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

نوبل امن انعام کا شمار دنیا کے سب سے معتبر اعزازات میں ہوتا ہے یہ انعام 1901 سے ہر سال ان افراد یا تنظیموں کو دیا جاتا ہے جو امن، سفارت کاری اور انسانی حقوق کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ مارچ 2025 میں پاکستان ورلڈ الائنس (PWA) نےجو کہ نارویجن سیاسی جماعت پارٹیت سینٹروم سے منسلک ہے، سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو اس نمایاں انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔ یہ نامزدگی عمران خان کے انسانی حقوق، جمہوریت اور علاقائی امن کے فروغ کی کاوشوں کو تسلیم کرنے کی علامت کے طور پر کیا گیا ہے۔
نوبل امن انعام سویڈش صنعتکار، موجد اور مخیر الفریڈ نوبل کی وصیت کے مطابق قائم کیا گیا ہے۔ یہ انعام نارویجن پارلیمنٹ کے مقرر کردہ کمیٹی کے ذریعے دیا جاتا ہے جو امن، ثالثی، تخفیف اسلحہ اور مفاہمت جیسے اقدار کی ترجمانی کرتا ہے۔ اپنے قیام سے لے کر آج تک، یہ انعام ان رہنماؤں، کارکنوں اور تنظیموں کو دیا گیا ہے جنہوں نے عالمی سطح پر امن کے فروغ اور تنازعات کو روکنے میں غیر معمولی خدمات انجام دیں۔
عمران خان کا بھی امن کے فروغ اور جمہوریت کی جہدوجہد کی جانب سفر بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ عمران خان جو کرکٹر سے سیاستدان بنے، نے 1996 میں پاکستان تحریک انصاف (PTI) کی بنیاد رکھی جس کا مقصد جمہوری اصولوں، شفافیت اور احتساب پر مبنی ایک فلاحی ریاست کا قیام تھا۔ ان کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ ان کی سماجی انصاف، معاشی مساوات اور سیاسی اصلاحات کے پیغامات کی بدولت ہوا۔
عمران خان کو 2019 میں پہلی بار نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا، جس کی بنیادی وجہ بھارت اور پاکستان کے درمیان پلوامہ واقعہ اور بالا کوٹ فضائی حملے کے بعد کشیدگی کو کم کرنے کی ان کی کوششیں تھیں۔ بھارتی پائلٹ ابھینندن ورتھامن کی رہائی کا فیصلہ عالمی سطح پر ایک امن اور ضبط کی علامت کے طور پر سراہا گیا۔
2025 کی حالیہ نامزدگی PWA کی جانب سے عمران خان کے پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ میں کردار کو تسلیم کرنے کی کوشش ہے۔ اگرچہ ان کا سیاسی سفر مختلف تنازعات، کرپشن کے الزامات اور سیاسی طور پر محرک مقدمات سے متنازع رہا ہے لیکن عمران خان نے ہمیشہ جمہوری اقدار اور سماجی انصاف کے فروغ کے لیے آواز اٹھائی ہے۔
یہ نامزدگی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عمران خان کو مختلف الزامات کے تحت قید کیا گیا ہے، جن میں ریاستی اختیارات کے غلط استعمال اور مبینہ کرپشن شامل ہیں۔ تاہم ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ الزامات سیاسی طور پر محرک ہیں اور ان کی عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دبانے کی کوشش ہیں۔
عمران خان کی سیاسی بیانیہ ہمیشہ سے کرپشن کے خلاف، اقتصادی اصلاحات اور میرٹ کی بنیاد پر رہا ہے۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے انہوں نے غربت کے خاتمے اور سماجی اصلاحات کے لیے کئی فلاحی منصوبے شروع کیے۔ خاص طور پر بھارت اور پاکستان کے تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مختلف فریقین کے درمیان ثالثی کی کوششیں علاقائی استحکام کے لیے ایک اہم پیش رفت سمجھی جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ عمران خان نے کشمیر کے عوام کی مشکلات پر کھل کر بات کی ہے اور مختلف عالمی فورمز پر ان کے حق خود ارادیت کے لیے آواز اٹھائی ہے۔
نارویجن نوبل کمیٹی ہر سال سینکڑوں نامزدگیاں وصول کرتی ہے اور انتخاب کا عمل آٹھ ماہ کی طویل مدت پر مشتمل ہوتا ہے۔ نامزد امیدواروں کا جائزہ ان کی امن کے فروغ، انسانی حقوق کے دفاع اور تنازعات کے حل میں کردار کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ کمیٹی کی تفصیلی جانچ پڑتال اور غور و خوض کے بعد اکتوبر میں نوبل امن انعام کے حقدار کا اعلان کیا جاتا ہے۔
عمران خان کی نوبل امن انعام کے لیے نامزدگی اہم بھی ہے اور متنازع بھی۔ جہاں ان کے مخالفین ان کی جمہوری حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں اور ان پر آمریت پسندی کا الزام لگاتے ہیں، وہیں ان کے حامی انہیں سماجی انصاف، علاقائی امن اور انسانی حقوق کے لیے مستقل آواز اٹھانے والا سمجھتے ہیں۔ چاہے عمران خان کو نوبل امن انعام ملے یا نہ ملے، ان کی نامزدگی ان کے سیاسی منظرنامے پر مستقل اثر و رسوخ اور امن و جمہوریت کے فروغ میں ان کی کاوشوں کی عکاسی کرتی ہے۔ امید ہے کہ یہ انعام اس بار پاکستان کو ملے گا ان شا الله۔

*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں