نسیم درمانوی کی پنجابی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ

نسیم درمانوی کی پنجابی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

نسیم درمانوی کا شمار پنجابی زبان کے چند کہنہ مشق شعرا میں ہوتا ہے ان کی شاعری میں دیہی ثقافت، مذہبی عقیدت اور زندگی کے عام مشاہدات کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔ ان کی شاعری سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ گہری معنویت بھی رکھتی ہے جس میں پنجابی زبان کی مٹھاس، دیہاتی طرزِ زندگی کا حسن، اور فطرت سے قربت نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری میں عشقِ رسولؐ کا والہانہ اظہار ملتا ہے۔ ان کی نعت کا اس مصرع “جی کردا اے در مدنی تے جاواں میں” میں جذبات کی شدت، سادگی اور عقیدت کا حسین امتزاج نظر پایا جاتا ہے۔ شاعر مدینہ جانے کی خواہش کو ایسے الفاظ میں بیان کرتا ہے جو قاری کے دل میں بھی محبتِ رسولؐ کی چنگاری روشن کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
“جہدی الله خود تعریف کردا اے
اوہدیاں نعتاں پڑھ، پڑھ سناواں میں”
نسیم کے یہ اشعار ایک سچے عاشقِ رسولؐ کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں جو حضور اکرمؐ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے در پر حاضری کی خواہش رکھتا ہے۔
نسیم درمانوی کی شاعری میں پنجابی دیہاتی زندگی کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ ان کی نظم “آ میں تنوں اپنا پنڈ ویکھاواں” میں دیہی زندگی کے تمام رنگ بکھرے نظر آتے ہیں۔ شاعر اپنے گاؤں کی خوبصورتی، سادگی اور محبت بھری فضا کو یوں پیش کرتا ہے کہ قاری خود کو اسی ماحول میں محسوس کرتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
“پنڈ میرے دے سبھ سادہ لوکی
کردے ناں او کوئی ٹوکا ٹوکی
بہہ ڈیرے، پیندے نیں حقے شوقی
سبھے پالن کھلیاں مجھاں، گاواں”
درمانوی کے یہ اشعار پنجابی دیہات کی ثقافت، میل جول اور سادگی کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں۔
ان کی شاعری میں عوامی رنگ کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی کی جھلک بھی شامل ہے۔ ان کی نظم “میں بابو منیاری والا چل کے لہوروں آیا” ایک منفرد تجربہ ہے جس میں ایک منیاری فروش کی زبان سے اس کی تجارت، اندازِ گفتگو اور خریداروں کو متوجہ کرنے کا طریقہ انتہائی دلکش انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ نظم کی روانی، زبان کی برجستگی اور عوامی انداز اس نظم کو منفرد بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھئیے:
“میں بابو منیاری والا، چل کے لہوروں آیا
کنگا، شیشہ، سرخی، پوڈر، سبھ کجھ شالموں لایا”
نسیم کی یہ نظم نہ صرف ایک مخصوص پیشے کی عکاسی کرتی ہے بلکہ پنجابی عوامی شاعری کی بہترین مثال بھی ہے۔
ان کی شاعری میں تجربے اور حکمت کی باتیں بھی نمایاں ہیں۔ ان کی نظم “ہمتوں ودھ کے بھار نئیں چنگا” میں زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بصیرت افروز گفتگو کی گئی ہے۔ یہ نظم پنجابی معاشرتی اقدار، دیہاتی دانش اور عملی زندگی کے اصولوں پر روشنی ڈالتی ہے مثلاً:
“جس دے وچوں راس ناں لبھے
انجدا کاروبار نئیں چنگا”
نسیم کے یہ اشعار زندگی کے عملی تجربات پر مبنی ہیں اور قاری کو غور و فکر پر مجبور کرتے ہیں۔
نسیم درمانوی کی پنجابی شاعری سادگی، خلوص اور دیہاتی ثقافت کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں مذہبی عقیدت، دیہی زندگی کی محبت، عوامی رنگ اور زندگی کے تجربات کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ وہ پنجابی زبان کی مٹھاس اور عوامی رنگ کو اپنی شاعری میں اس خوبصورتی سے سمو دیتے ہیں کہ ان کا کلام عام قاری سے براہ راست جڑ جاتا ہے۔ ان کی شاعری نہ صرف پنجابی ادب میں ایک اہم اضافہ ہے بلکہ پنجابی ثقافت اور روایات کا ایک قیمتی اثاثہ بھی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں