بلوچستان کے 22 اضلاع لیڈی ڈاکٹرز سے محروم محکمہ صحت کے دعوے دھرے کے دھرے، زمینی حقیقت تشویشناک

بلوچستان کے 22 اضلاع لیڈی ڈاکٹرز سے محروم محکمہ صحت کے دعوے دھرے کے دھرے، زمینی حقیقت تشویشناک

بلوچستان کے 22 اضلاع لیڈی ڈاکٹرز سے محروم محکمہ صحت کے دعوے دھرے کے دھرے، زمینی حقیقت تشویشناک

بلوچستان میں خواتین مریضوں کو صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں، صوبے کے 36 میں سے 22 اضلاع ایسے ہیں جہاں ایک بھی لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں۔ محکمہ صحت دعوے تو بہت کرتا ہے، لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔

بلوچستان 24 کو حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق، صوبے میں صرف 14 اضلاع ایسے ہیں جہاں ماہر امراضِ نسواں دستیاب ہیں، باقی علاقوں میں یہ سہولت محض ایک خواب ہے۔

محکمہ صحت کے ذرائع تسلیم کرتے ہیں کہ کئی اضلاع میں کاغذی طور پر لیڈی ڈاکٹرز کی تعیناتی دکھائی گئی ہے، لیکن حقیقت میں وہ اسپتالوں میں موجود نہیں ہوتیں۔ اکثر لیڈی ڈاکٹرز کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی تعیناتی کوئٹہ یا دیگر شہری علاقوں میں ہو — دیہی خواتین؟ وہ خود ہی اپنے زخموں کا مرہم بنیں۔

ذرائع کے مطابق، بلوچستان میں لیڈی ڈاکٹرز کی کل تعداد 980 ہے، جن میں سے 739 صرف کوئٹہ میں تعینات ہیں۔ چاغی اور ڈیرہ بگٹی جیسے دور دراز اور پسماندہ اضلاع میں ایک بھی لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں، جبکہ آواران، بارکھان اور اوستہ محمد میں یہ تعداد صرف ایک ایک ہے۔

صورتحال اس حد تک سنگین ہے کہ 11 اضلاع ایسے ہیں جہاں لیڈی ڈاکٹرز کی تعداد 10 سے بھی کم ہے۔

محکمہ صحت کی جانب سے ماں اور بچے کی صحت کے لیے چار بڑے پروگرامز کو “ون ونڈو آپریشن” کے تحت یکجا کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب اسپتال ہی خالی ہوں، تو ان پروگرامز کا فائدہ کس کو ہوگا؟

صوبے بھر میں 1600 کمیونٹی مڈوائفز کو کمیونٹی ورکنگ اسٹیشنز دیے جانے کا وعدہ کیا گیا ہے، مگر سیکیورٹی، بنیادی سہولیات اور رہائش جیسے اہم مسائل کو نظر انداز کر کے صرف بیانات پر گزارا کیا جا رہا ہے۔

یہ تمام صورتحال اس تلخ حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ بلوچستان میں صحت کا نظام فائلوں اور تقریروں میں تو زندہ ہے، مگر عوام کی زندگی میں اس کا کوئی عکس نظر نہیں آتا۔

اپنا تبصرہ لکھیں