LOGO FOR ARTICLE ADV

اسلامی نظریاتی کونسل اور غیر شرعی وی پی این

تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ راغب نعیمی کی جانب سے وی پی این کے حوالہ سے جاری کردہ پریس ریلیز کے بعدپرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر طرفین کی جانب سے رائے زنی کی جارہی ہے اور کونسل کے مقاصد، افعال اور کردار اک مرتبہ پھر موضوع بحث بن چکے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کونسل, اسکا دائرہ اختیار اور ذمہ داریاں کیا ہیں؟ یہ کونسل آئین پاکستان کے آرٹیکل 228کے تحت وجود میں آئی جسکے مطابق مختلف مکاتب ِفکر کے جید علماء کرام، ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے سابق جج بشمول ایک عورت کونسل کے کم از کم آٹھ اور زیادہ سے زیادہ بیس ممبران ہونگے۔

آرٹیکل 229کے مطابق، صدر، صوبائی گورنر، قومی اسمبلی یا سینٹ یا صوبائی اسمبلی کے ایک چوتھائی ممبران کی جانب سے کونسل کو بھیجے گئے سوال کہ آیا مجوزہ قانون اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے یا نہیں؟ اور کونسل پر لازم ہے کہ پندرہ یوم کے دوران مشورہ دے۔ آرٹیکل 230میں کونسل کے افعال کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔ جیسا کہ: پاکستانی مسلمانوں کو قرآن و سنت کے مطابق انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کے لئے قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو سفارشات پیش کرنا۔ موجودہ قوانین کو اسلامی تعلیمات کے تابع لانے کے لئے سفارشات پیش کرنا۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو اسلامی احکامات کے نفاذ کی خاطر قانون سازی کے لئے رہنمائی فراہم کرنا۔ اور جب مجوزہ قانون کو کونسل سے مشورہ کی بابت بھیجا جائے اور کونسل یہ طے کرے کہ مجوزہ قانون اسلامی تعلیمات کے منافی ہے تو صدر، گورنر، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی مجوزہ قانون میں ترمیم کے لئے نظرثانی کرنے کے پابند ہونگے۔

ٓآرٹیکل 228تا 230اور کونسل کے چیئرمین کی پریس ریلیز کے بغور مطالعہ چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ:
پارلیمنٹ، صدر، گورنر، صوبائی اسمبلی میں سے کس نے کونسل سے وی پی این کی بابت سوال پوچھا تھا؟ اسکا سادہ سا جواب ہے کہ درج بالا میں سے کسی نے سوال نہیں پوچھا تھا۔
بی پی این کی بابت سوال کس تاریخ کو پوچھا گیا؟ اور کونسل کی جانب سے جواب کب پیش کیا گیا؟ سوال پوچھنے کی تاریخ معلوم نہ ہوسکی مگر جواب 15نومبر کو عوام کے سامنے پیش کردیا گیا۔

پریس ریلیز میں سوال پوچھنے والے کا نام درج تھا؟ اسکا جواب نفی میں ملتا ہے۔
کیا چیئرمین کونسل نے ذاتی حیثیت میں سوال کا جواب دیا تھا یا کونسل کی جانب سے؟
پریس ریلیز کے مطابق وی پی این سے متعلق سوال کا جواب اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے چیئرمین کونسل نے دیا۔
کیا کونسل کی جانب سے جاری پریس ریلیز جاری کرنا آئین و قانون کے مطابق ہے؟

چونکہ سوال پوچھے جانے والے کا نام یعنی صدر، گورنر، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی نہیں ہے، بظاہر مبینہ کسی فرد واحد کے سوال کا جواب اسلامی نظریانی کونسل کے پلیٹ فورم سے دیا گیا ہے۔ لہذا بحیثیت قانون کے طالب علم، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے منسوب پریس ریلیز غیر آئینی و اختیارات سے تجاوز شمار کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ آئین کے آرٹیکل 229اور 230میں کونسل کی ذمہ داریاں اور دائرہ اختیار بہت واضح حد تک بیا ن کیا گیا ہے۔ کونسل کا کام صرف آئین کے تابع قابل قبول ہوسکتا ہے نا کہ مفتی صاحبان کی طرح فتوے جاری کرنا۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے یہاں جو معاملہ کنٹرول سے باہر ہوجائے تو اسے مذہبی ٹچ سے کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستا ن میں دہشت گردی، غیر اخلاقی معاملات، بینکنگ ٹرانزیکشن کے حوالہ سے قوانین و سزائیں موجود نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو پھر کونسل کو اس فتویٰ نما پریس ریلیز کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

برصغیر پاک و ہند، ماضی میں لاؤڈ اسپیکر، ٹیلی ویژن، کیمرہ، فوٹو گرافی، ویڈیو حرام قرار دینے کے لئے متعدد فتوے جاری کئے گئے مگر آج انہی سائنسی ایجادات کے بغیر ہماری کوئی مذہبی مجلس مکمل ہی نہیں ہوپاتی۔ با آمر مجبوری حکومت کومذہبی مقامات و محافل میں لاؤڈ اسپیکر کنٹرول کرنے کے لئے قانون سازی کرنا پڑی۔ ماضی میں کئی مذہبی حلقوں نے سوشل میڈیا کو یہود و نصاریٰ کی سازش قرار دیا مگر آج شائد ہی ایسا کوئی مذہبی رہنما ہو جسکا سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ یا ویب سائٹ موجود نہ ہو۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کئی مذہبی رہنماء ویڈیو ریکارڈ کرواتے وقت اپنے بیک گراؤنڈ میں یوٹیوب سلور، گولڈ اور ڈائمینڈ بٹن کو نمایاں کرکے ایسے دیکھا رہے ہوتے ہیں جیسے یہودونصاریٰ کے قلعے کو فتح کرلیا ہو۔

حد تو یہ ہے کہ ماضی میں یوٹیوب کو حرام قرار دیا گیا مگر اب یوٹیوب چینل کھول کر لاکھوں، کروڑوں روپے کی آمدن بھی حاصل کی جارہی ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں سائنسی ایجادات کو مختلف مذاہب کے فتووں سے روکا جا سکا اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ممکن ہوگا۔ حقیت پسندانہ اور غیر جانبدارنہ تجزیہ کیا جائے تو اسلامی نظریانی کونسل کے چیئرمین کی پریس ریلیز حقیقی معنوں میں جگ ہنسائی کا باعث بن چکی ہے۔ علامہ راغب نعیمی صاحب کو سوال کا جواب کونسل کی بجائے ذاتی حیثیت میں دینا چاہیے تھا۔ کیونکہ انتظامی معاملات کو انتظامی طریقے سے کنٹرول کرنے کی بجائے مذہبی ٹچ سے حل کرنا بھونڈی حرکت قرار پاتا ہے۔ منسٹری آف سائنس و ٹیکنالوجی، آئی ٹی بورڈ، سائبر کرائم روکنے کے لئے قوانین، اداروں اور عدالتوں کی موجودگی میں روایتی فتویٰ بازی سے کام لینے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔

سائنسی ایجادات کے منفی استعمال کو صرف سائنس ہی کی بدولت روکا جاسکتا ہے۔ بالاشک وشبہ ریاست کی حفاظت ریاستی اداروں کا کام ہے، ضرور ت صرف اس امر کی ہے کہ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ریاست مخالف و غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مصروف عمل عناصر کو کنٹرول اور کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کریں اور موجودہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنائیں اوراگر قوانین میں نقائص موجود ہیں تو دورِحاضر کے تقاضوں کے عین مطابق قانون سازی کی جائے ناکہ روایتی فتویٰ بازی سے کام لیا جائے۔

اپنا تبصرہ لکھیں