ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
مست توکلی (1825-1892) بلوچی ادب کے بانی اور ایک عظیم صوفی شاعر اور اپنے وقت کے ایک انقلابی اور اصلاح پسند شخصیت تھے۔ ان کی شاعری میں محبت، امن، بھائی چارے اور سماجی مساوات کا پیغام جابجا ملتا ہے۔ وہ اپنے دور کے جاگیردارانہ نظام اور قبائلی سرداروں کی مطلق العنانی کے سخت مخالف تھے۔ مست توکلی کی زندگی اور شاعری کا گہرا تعلق ان کے روحانی تجربات اور ذاتی محبت کی داستان سے ہے، جو انہیں بلوچی ادب کے افق پر ایک منفرد مقام عطا کیا ہے۔
مست توکلی کا اصل نام سہراب تھا، لیکن ان کی زندگی کے حالات نے انہیں “مست” بنا دیا تھا۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ ان کی محبت ” سموں” سے جڑا ہوا ہے۔ یہ محبت ان کے لیے ایک وسیلہ بنی جو مادی محبت سے نکل کر روحانی عشق میں تبدیل ہوئی۔ سموں کی جدائی نے ان کی شاعری کو ایک صوفیانہ رنگ عطا کیا اور وہ اپنی باقی زندگی خدا کی محبت کے لیے وقف کر دی یعنی عشق مجازی سے عشق حقیقی میں چلے گئے۔
مست توکلی کی شاعری بلوچی زبان و ادب کے لیے ایک سنگِ میل ہے۔ ان کی شاعری میں ایک ایسے معاشرے کا خواب جھلکتا ہے، جہاں مساوات اور محبت کا بول بالا ہو۔ ان کے اشعار نہ صرف انفرادی محبت کا اظہار ملتا ہے بلکہ اجتماعی شعور کو بھی جگانے کے موضوعات پر بھی آپ کی شاعری ملتی ہے۔ ان کے کلام میں انسانی دکھ، استحصال اور سماجی ناانصافی کے خلاف ایک گہری پکار سنائی دیتی ہے۔
راقم الحروف نے مست توکلی کی شاعری کا کھوار زبان میں ترجمہ کیا ہے یہ بلوچی سے کھوار میں تراجم کی پہلی کوشش ہے۔ کھوار اور بلوچی ادب کے فروغ کے لیے راقم الحروف نے مست توکلی کے بلوچی پیغام کو چترال، غذر، اور کالام جیسے علاقوں کے کھوار زبان بولنے والی قارئین تک تراجم کے ذریعے پہنچایا ہے۔
میں نے مست توکلی کی بلوچی شاعری کا کھوار میں ترجمہ نہایت وفاداری کے ساتھ کیا ہے جہاں نہ صرف اصل بلوچی اشعار کا مفہوم برقرار رکھا گیا ہے بلکہ ان کے روحانی و جذباتی پہلو کو بھی بڑی مہارت سے کھوار زبان میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ترجمہ شدہ اشعار کھوار ادب میں محبت، درد اور روحانیت کی نئی جہتیں شامل کرنے میں مدد گار ثابت ہونگے۔
مست توکلی کی شاعری میں محبت اور روحانیت کے موضوعات کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے مشہور اشعار میں سے ایک جو ”سمو ں” کی محبت کے حوالے سے ہے مثلاً:
دل گنوخ بیثہ کھاری کھنت چُکھی انگلاں
ظالم و زوراخ بیثہ ژء میڑ و مِنّتاں
کھوار ترجمہ: (سموں بچے) مہ ہردی پھاگل بیتی شیر، ہانیسے ہیہ پھوپھوکان غون ضد کوریک شروع کوری اسور، وا ہسے (سمّوں تھے) ظالم اوچے زور آور اسور اشقالی اوچے پھیری کوریکو دی نو مانیران۔
راقم الحروف نے مست توکلی کی بلوچی شاعری کا کھوار ترجمہ نہایت دلنشین انداز میں کیا ہے جس میں دل کی کیفیت، محبت کا جنون اور روحانی پہلو مکمل طور پر جھلکتا ہے۔
مست توکلی کی شاعری آج بھی سماجی انصاف، محبت اور روحانیت کے حوالے سے ایک مشعلِ راہ ہے۔ ان کی شخصیت اور کلام ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ انسانی محبت اور خدا کی محبت میں فرق مٹانے کا نام صوفی ازم ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مست توکلی کی حالات زندگی اور شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری بلوچی ادب کی روح ہے اور ان کے خیالات زمان و مکان کی قید سے آزاد ہیں۔ راقم الحروف نے کھوار زبان میں ان کے خیالات کو ترجمہ کر کے ادب اور ثقافت کے میدان میں ایک ادنیٰ سی کوشش کی ہے۔ یہ ترجمہ دونوں زبانوں کے قارئین کے لیے محبت، امن، اور بھائی چارے کے پیغام کو مزید پھیلانے کا ذریعہ بنے گا ان شاء اللہ۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے مست توکلی کی بلوچی شاعری، کھوار اور اردو تراجم پیش خدمت ہیں۔
٭
دل گنوخ بیثہ کھاری کَھنت چُکھی انگلاں
ظالم و زوراخ بیثہ ژء میڑ و مِنّتاں
بیا و ماہ لیج کہ مں گوں اے ڈایا چھوں کھناں
مں ریز گراں ماری پہ پوادا دیم ءَ دیاں
تھئ کاغذیں رَکّھاں چو لَواری تا داثغاں
کُشکیں دَتّاناں شورغ و پُڑزی پَکّغاں
ریٹویں چَھمّاں ژء پَوادا رُلّیں تغاں
حون منی اوشیشیں دل ء چَکّا مستغاں
کَس نَخَں پھول ء نئیں تہ سلام ءِ دیمدیئے
نَئیں منی تُھنّی ایں دل ءَ حالاں سئی کھنئے
٭
اردو ترجمہ: (سموں کےلیے) میرا دل جو دیوانہ ہو گیا ہے اب یہ دل بچوں جیسی ضد کرنے لگا ہے اور میری محبوبہ یعنی (سمّو ں تو) ظالم اور زور آور ہے منت اور سماجت کے باوجود بھی نہیں مانتی۔ اب اے میری جان من آ بھی جا کہ میں اس (فراق کے درد کی)کیفیت کا کیا کروں گا (جس درد کی وجہ سے) میں (زخمی) سانپ کی طرح تڑپتا رہتا ہوں ہوں۔ تیرے کاغذ جیسے باریک لبوں نے بادِ سموم کی طرح میرے دل کو جلا کر خاکستر کر دیا ہے۔تیرے سفید کوڑیوں جیسے دانتوں نے مجھے ایسے بھون ڈالا ہے جیسے قلمی شورے (مست کے زمانے میں بندوقوں کا بارود جو قلمی شورے سے بنایا جاتا تھا) سے جلنے والے جانور (جن کا شکار کیا جاتا ہے) میرے صاف شفاف دل پر اب خون جم چکا ہے، (اب) کوئی بھی میرا پُرسانِ حال نہیں اور نہ تم کوئی مجھے سلام بھیجتی ہو۔ اور نہ ہی میرے پیاسے دل کی حالت جانتی ہو۔( نوٹ: بلوچی سے اردو ترجمے میں محمد حسن آثم کھیازئی سے مدد لی گئی ہے)۔
٭
کھوار ترجمہ: (سموو بچے) مہ ہردی پھاگل بیتی شیر وا ہیہ ہانیسے پھوپھوکان غون ضد کوریک شروع کوری اسور۔ ہسے (سمّو تھے) ظالم اوچے زور آور اسور اشقالی اوچے پھیری کوریکو دی نو مانیران۔ہانیسے اے مہ شیرین ژان مہ نسوتے گیئے لا اوا ہیہ جدائیو دردان کیفیتن کیاغ کوروم، وا ہے (فراقو دردان)کیفیتو کیاغ کوروم کی (ہے دردان وجھین) اوا (زخمی) آئییو غون آیہہ بی یو دومان۔ تہ کاغذو غون باریکی شون انتہائی گرم ہووو غون مہ پالئیے کروچ کوری شیر۔ تہ اشپیرو اشپیرو چکستان غون دون ہش برونیتانی کیچہ کی قلمی شورو (مست توکلیو زمانا تھویکان ویز کی ہسے قلمی شوران سورا ساوزئینو باوشتائے) وجھین پولواک ژانوار (ہتیتان ا شکار کورونو باوتائے)۔ مہ شیشو غون صفا ہریا ہانیسے لئیے یوز چوکی شیر۔ (ہانیسے) کیہ کا دی مہ حالو بشارو نو گانیران وا نہ تو متے سلام چیچھئسان۔ وا نہ تو مہ تھروشنی ہردیو حالتو ہوش کوروسان۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔