پاکستان میں واٹس ایپ ہیک ہونے کا خطرہ

پاکستان میں واٹس ایپ ہیک ہونے کا خطرہ

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاکستان میں گزشتہ چند ماہ کے دوران واٹس ایپ ہیکنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف عام شہریوں بلکہ ملک کی اہم شخصیات کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے جیسا کہ سپریم کورٹ کے سابق سینئر جج جسٹس وجیہ الدین احمد اور سی پی ایل سی کے سابق چیف احمد چنائے کے واٹس ایپ اکاؤنٹس کا ہیک ہونا ایک خطرناک صورت حال ہے۔ یہ صورتحال نہایت تشویش ناک ہے کیونکہ واٹس ایپ ایک مقبول اور روزمرہ استعمال ہونے والا پلیٹ فارم ہے جس پر افراد کی ذاتی اور پیشہ ورانہ معلومات موجود ہوتی ہیں۔
ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے مطابق زیادہ تر ہیکنگ کے کیسز فنانشل فراڈ کے تحت کیے جا رہے ہیں۔ ہیکرز واٹس ایپ اکاؤنٹس ہیک کرکے متاثرہ افراد کے رابطہ لسٹ میں شامل افراد سے پیسے طلب کرتے ہیں اور اکثر سادہ لوح شہری ان مطالبات کو پورا کر دیتے ہیں۔ یہ واقعات جنوبی پنجاب کے علاقوں میں زیادہ رپورٹ ہوئے ہیں، جہاں ہیکرز زیادہ فعال دکھائی دیتے ہیں۔
واٹس ایپ ہیکنگ کی وجوہات میں سائبر سیکیورٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی اور صارفین کی لاعلمی شامل ہیں۔ جن میں سے چند اہم عوامل درج ذیل ہیں۔ سب سے بڑی وجہ رجسٹریشن کوڈ کا شیئر ہونا ہے۔ ہیکرز متاثرہ شخص کو دھوکہ دے کر ان سے چھ ہندسوں کا رجسٹریشن کوڈ حاصل کر لیتے ہیں اور پھر اس کا اکاونٹ ہیک کرلیتے ہیں۔
دوسری وجہ ٹو اسٹیپ ویری فکیشن کی عدم موجودگی ہے۔ زیادہ تر صارفین اس اضافی سیکیورٹی فیچر کو فعال نہیں کرتے جس سے اکاؤنٹ ہیکنگ آسان ہو جاتی ہے۔
تیسری وجہ صارفین کا غیر محفوظ لنکس پر کلک کرنا ہے۔ ہیکرز متاثرہ افراد کو غیر محفوظ لنکس بھیج کر ان کا ڈیٹا چوری کرتے ہیں۔
ایف آئی اے نے متعدد متاثرین کے واٹس ایپ اکاؤنٹس بحال کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اس مسئلے کے تدارک کے لیے ملتان کے سائبر کرائم سرکل کے ساتھ بھی تعاون کیا جا رہا ہے۔
ہیکنگ سے بچاؤ کی تدابیر بھی موجود ہیں جن ٹو اسٹیپ ویری فکیشن کو فعال کرکے ہیکنگ سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ فیچر واٹس ایپ میں ایک اضافی سیکیورٹی لیئر فراہم کرتا ہے۔
دوسری حفاظتی اقدام یہ ہے کہ رجسٹریشن کوڈ ہو ہرگز کسی سے شیئر نہ کیا جائے۔ اگر کسی اجنبی یا مشکوک شخص کی جانب سے کوڈ شیئر کرنے کی درخواست کی جائے تو اسے فوری طور نظر انداز کریں۔
اپنی پروفائل فوٹو کو صرف اپنے جاننے والے افراد کے لیے محدود کریں اور باقی اسے کاپی نہ کرسکیں۔
مشکوک پیغامات کی تصدیق کی جائے۔ کسی بھی مالی درخواست یا اہم پیغام کی کال کرکے تصدیق کریں۔
مشکوک لنکس سے گریز کریں۔ کسی بھی غیر محفوظ یا غیر متعلقہ لنک پر کلک نہ کریں۔
واٹس ایپ ہیکنگ کا مسئلہ تکنیکی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ عوام کی سائبر سیکیورٹی کے بارے میں عدم آگاہی کی عکاسی کرتا ہے۔ عوام کو اس حوالے سے شعور دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ ہیکنگ کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رہ سکیں۔ مزید برآں ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ اداروں کو اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے مزید اقدامات اٹھانے چاہییں، جیسے کہ ہیکرز کے نیٹ ورک کو توڑنا اور سائبر کرائم قوانین کو سختی سے نافذ کرنا وغیرہ وغیرہ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ واٹس ایپ ہیکنگ نہ صرف ذاتی معلومات کے تحفظ کے لیے خطرہ ہے بلکہ یہ عوام کے اعتماد کو بھی مجروح کرتا ہے۔ صارفین کی آگاہی، جدید سیکیورٹی فیچرز کا استعمال، اور حکومتی سطح پر موثر کارروائی اس مسئلے کا مستقل حل ہو سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام صارفین مل کر سائبر کرائم کے خلاف ایک مضبوط دیوار کھڑی کریں۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں