ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کی جانب سے FBR کے ایس آر او 428 (I)/2024 کے خلاف حکومت سے اپیل کی گئی ہے جس میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دینے کے لیے ہدایات جاری کی گئی ہیں
آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن نے حکومتی ایس آر او 428 (I)/2024 کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 25-اے کے خلاف قرار دیا ہے، جو پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ پرائیویٹ سکولز کے سربراہاں کا مقف ہے کہ تعلیم کو ریاست کی بنیادی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے نہ کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پانچ سال سے سولہ سال کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرے۔ اور ایسے حکومتی اقدامات اس آئینی وعدے کو کمزور کرتے ہیں۔
کاشف مرزا اور ڈاکٹر ملک ابرار حسین کے مطابق یہ ایس آر او کم لاگت والے سکولوں پر غیر متناسب اثر ڈالے گا ان کی پائیداری میں رکاوٹ بنے گا اور پسماندہ علاقوں میں تعلیمی رسائی کو مزید محدود کرے گا۔ پریس ریلیز میں دیے گئے اعداد و شمار—جیسے 18% سکولوں میں انٹرنیٹ کی دستیابی اور 12% اساتذہ کی ڈیجیٹل خواندگی—ایس آر او کے نفاذ کی غیر حقیقت پسندانہ نوعیت کو نمایاں کرتے ہیں۔
ایف بی آر کا جاری کردہ یہ ایس آر او حکومت کی تعلیمی پالیسیوں سے تضاد کی نشاندہی کرتی ہے۔ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں محمد شہباز شریف کے تعلیمی ایمرجنسی پلان اور ایس آر او کے درمیان تضاد بھی پرائیویٹ سکولز کے پریس ریلیز کا ایک اہم پہلو ہے۔ وزیراعظم کی تعلیمی ایمرجنسی کا مقصد تعلیم کو فروغ دینا اور اسے ہر فرد تک پہنچانا ہے لیکن پرائیویٹ سکولز کو ناجائز طور پر پابند کرکے یہ ایس آر او اس ہدف کے برعکس نظر آتا ہے۔
ایس آر او کو اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کے خلاف بھی قرار دیا گیا ہے جن میں معیاری تعلیم کا فروغ ایک اہم ہدف ہے۔
حکومت کا یہ فیصلہ کم لاگت والے سکولوں کی بندش کا باعث بن سکتا ہے، جس سے تعلیم کے فروغ کو شدید دھچکا لگے گا۔ معیاری تعلیم تک رسائی میں کمی کا مطلب یہ ہوگا کہ سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
یک طرفہ پالیسی سازی ہمیشہ نقصان کا باعث بن سکتی ہے فیڈریشن کا مؤقف ہے کہ ایس آر او جیسی پالیسیز بنانے میں تعلیمی اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت شامل نہیں کی گئی جو جمہوری رویے کے منافی ہے۔
یہ پالیسی کم لاگت والے نجی سکولوں کے مالی معاملات کو مزید دباؤ میں ڈال سکتی ہے جس سے ان کے بند ہونے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
پریس ریکیزث میں فراہم کردہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کے زیادہ تر تعلیمی ادارے ڈیجیٹل انضمام کے لیے تیار نہیں ہیں جو اس ایس آر او کی ناکامی کا باعث بن سکتا ہے۔
فیڈریشن نے فیڈرل ٹیکس محتسب کی عدالت سے اپیل کی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں کو اس ایس آر او کے دائرہ کار سے باہر رکھے اور تعلیمی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پرائیویٹ سکولز کا یہ پریس ریلیز حکومت کی پالیسیوں میں نرمی لانے کی درخواست ہے۔ اس ایس آر او کے نفاذ سے تعلیمی عدم مساوات میں اضافہ ہوگا جو پاکستان کے آئینی، تعلیمی، اور سماجی اقدار کے خلاف ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فیڈریشن کے مؤقف پر غور کرے، اس فیصلے کو واپس لے اور تعلیم کے فروغ کو اپنی اولین ترجیح بنائے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔