دینی مدارس رجسٹریشن اور مولانا فضل الحمٰن کا موقف

دینی مدارس رجسٹریشن اور مولانا فضل الحمٰن کا موقف

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے حالیہ بحث نہ صرف ایک حساس موضوع ہے بلکہ اس نے مختلف حلقوں میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ آج کے اس کالم میں اس بحث کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ پیش کیا جائے گا، تاکہ اس مسئلے کی نوعیت اور اس کے ممکنہ حل کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔
پاکستان میں دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان کے بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے ڈرافٹ نے تنازعات کو جنم دیا ہے مدارس کے نمائندوں اور حکومتی اداروں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے معاملہ مزید پیچیدہ ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
ایک سوال پوچھا جارہا ہے کہ پاکستانی مدارس جو کہ دینی و اسلامی تعلیمی ادارے ہیں کو کیوں خصوصی قوانین کے تحت رجسٹر کرنے کی ضرورت پیش آئی جبکہ دیگر تعلیمی ادارے عمومی قوانین کے تحت رجسٹر ہوتے ہیں۔
بحث میں سیاسی جماعتوں، خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، اور دیگر اہم شخصیات کا کردار نمایاں رہا۔ مولانا فضل الحمٰن نے واضح کیا ہے کہ تمام مراحل میں سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں نے اپنی شمولیت ظاہر کی تھی، لیکن بعد میں اختلافات پیدا کیے گئے۔
یہ تضاد اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے مدارس کے مسئلے کو استعمال کیا گیا، جس سے ان اداروں کی خودمختاری متاثر ہوئی۔
مولانا فضل الحمٰن نے آئینی ترمیم اور سوسائٹی ایکٹ 1860 کے تحت رجسٹریشن کے مسئلے پر زور دیا ہے۔ ان کا مؤقف یہ ہے کہ اگر یہ ایکٹ دیگر تعلیمی اداروں کے لیے موزوں ہے تو دینی مدارس کے لیے کیوں نہیں؟
یہ دلیل قابل غور ہے کہ اگر مدارس نے ریاست کے قانون کے تحت رجسٹریشن کو قبول کر لیا ہے تو مزید اعتراضات کیوں کیے جا رہے ہیں؟
مولانا فضل الحمٰن نے واضح کیا ہے کہ مدارس کے اندرونی معاملات میں حکومتی مداخلت نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مدارس کی آزادی اور خودمختاری کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔
یہ نکتہ اہم ہے کیونکہ مدارس کی خودمختاری ان کی تعلیمی، دینی اور مذہبی حیثیت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
مولانا فضل الحمٰن نے اس مسئلے کے حل کے لیے چند تجاویز پیش کی ہیں:
حکومت کو فوری طور پر اس ایکٹ کا نوٹیفکیشن جاری کرنا چاہیے۔
اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کو قانونی چارہ جوئی پر غور کرنا چاہیے۔
تمام فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ مشاورت اور تعاون کے ذریعے مسائل حل کرنے چاہییں۔
مولانا فضل الحمٰن نے اپنے مؤقف کو واضح اور مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے، لیکن چند سوالات اب بھی باقی ہیں:
کیا مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے حکومت کی نیت واقعی مثبت ہے یا یہ مسئلہ صرف سیاسی دباؤ کا نتیجہ ہے؟
کیا مدارس کے نمائندے بھی اپنے مؤقف میں لچک دکھا رہے ہیں یا وہ مکمل خودمختاری کے مطالبے پر اڑے ہوئے ہیں؟
خلاصہ کلام یہ ہے کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن کے مسئلے کو سادہ اور قانونی انداز میں حل کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ تمام فریقین نیک نیتی اور سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کریں۔ اس تنازعے کو غیر ضروری طور پر پیچیدہ بنانا نہ صرف مدارس بلکہ پورے تعلیمی نظام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ تمام فریقین اپنے اپنے مؤقف پر نظرثانی کریں اور ایک مشترکہ حل تلاش کریں، تاکہ دینی مدارس اپنی تعلیمی، دینی اور مذہبی خدمات کو بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھ سکیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں