ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر نے قومی سلامتی، عوامی تحفظ، اور بین الاقوامی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ وزارت داخلہ کی قومی اسمبلی میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق 2024ء کے ابتدائی دس ماہ میں دہشت گردوں کے خلاف 12801 انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیے گئے، جن میں 341 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ مزید یہ کہ کالعدم تنظیموں کی تعداد 82 تک پہنچ گئی ہے اور دہشت گردی میں مالی معاونت کے مقدمات میں 2466 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ اعداد و شمار دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی شدت اور اس کے پیچیدہ پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز 2001ء میں 11 ستمبر کے حملوں کے بعد کیا، جب امریکہ نے افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف کارروائی کی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان نے اپنی سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کے خلاف متعدد آپریشنز شروع کیے۔ 2015ء سے 2020ء کے دوران آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے فوجی اقدامات کے ذریعے دہشت گردی کی وارداتوں میں نمایاں کمی آئی۔ تاہم 2021ء میں کابل میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔
2024ء کے ابتدائی دس ماہ میں 1566 دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں کم از کم 924 افراد شہید ہوئے جن میں عام شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔ ان واقعات نے نہ صرف عوام میں خوف و ہراس پیدا کیا بلکہ معیشت اور ترقیاتی منصوبوں کو بھی متاثر کیا۔وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں نے اپنی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین کا استعمال کیا جس پر پاکستان نے کئی بار بین الاقوامی سطح پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
افغان سرزمین سے دہشت گردی کی سرگرمیوں نے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تناؤ پیدا کیا ہے۔ تاہم حالیہ دنوں میں کابل میں افغان وزیر دفاع سے پاکستانی ناظم الامور کی ملاقات اور اسلام آباد میں وزیر خارجہ اسحٰق ڈار سے افغان سفیر کی ملاقات نے امید پیدا کی ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے سدباب کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں گے۔
وزارت داخلہ کی رپورٹ میں دہشت گردی کے خلاف انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشنز کی کامیابی کو اجاگر کیا گیا ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ان آپریشنز کے نتائج کو پائیدار بنانے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔
انٹیلی جنس کے نظام کی بہتری کی گنجائیش ہے لہذا دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے لیے جدید انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔
دہشت گردی کی جڑیں اکثر سرحد پار پائی جاتی ہیں اس لیے افغانستان اور دیگر ممالک کے ساتھ قریبی تعاون ناگزیر ہے۔
دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ذرائع کو ختم کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔
عوام کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل کرنے کے لیے آگاہی مہمات چلائی جائیں۔
وزارت داخلہ کی رپورٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار دہشت گردی کے خلاف جاری کوششوں کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں لیکن ان اعداد و شمار کے پیچھے موجود مسائل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کالعدم تنظیموں کی تعداد میں اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی میں کچھ خامیاں موجود ہیں۔ مزید براں افغان سرزمین کے استعمال کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ محض ملاقاتیں اور بیانات اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ ایک پیچیدہ اور کثیرالجہتی چیلنج ہے۔ وزارت داخلہ کی حالیہ رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اس لعنت کے خاتمے کے لیے مضبوط اور پائیدار حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تعاون کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اندرونی سطح پر انسداد دہشت گردی کے اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی یکجہتی، بین الاقوامی حمایت، اور مضبوط حکمت عملی وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔