*
ظرفِ ظرافت
*
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
خادم حسین کا شمار پاکستان کے چند چیدہ اور چنیدہ مزاح نگاروں میں ہوتا ہے،۔ان کا تعلق ضلع سرگودھا سے ہے اور تعلیم ایم اے اردو ایم ایڈ ہے۔ کے ایچ مجاہد اور مجاہد ادیب شیخ ان کے قلمی نام ہیں۔ماہنامہ چاند لاہور، شگوفہ انڈیا اور مزاح پلس کراچی میں ان کے طنز و مزاح پر مبنی مضامین شامل ہوتے تھے۔ اب زیادہ تر ماہنامہ حکایت لاہور میں کالم، مزاح، کہانیاں اور تحقیقی مضامین لکھتے ہیں۔یہ 1989 سے لکھ رہے ہیں۔ اب تک ان کی مشہور ملکی اور غیر ملکی رساٸل میں سیکڑوں تحریریں شاٸع ہوچکی ہیں انھوں نے ادب کی ہر صنف خصوصاً کہانی اور افسانہ لکھا اور بچوں کے ادب میں بھی حصہ ڈالا۔ لیکن طنزو مزاح ان کا خاص میدان ہے جس میں انھوں نے مضامین کہانیاں، پیروڈی، انشاٸیے، خاکے اور کالم لکھے۔بابا شونقی۔توتی فرام نقار خانہ۔آخری درویش ۔فارغ خان خیالی اور مس ناطقہ کشش ان کے مزاحیہ کردار ہیں۔
خادم حسین مجاہد اردو ادب کے ایک ممتاز مزاح نگار ہیں، جنہوں نے اپنے منفرد اسلوب اور مشاہدے کی گہرائی سے خاکہ نگاری کو ایک نیا زاویہ دیا ہے۔ ان کی تحریریں قاری کو محظوظ کرنے کے ساتھ ساتھ غور و فکر پر بھی مجبور کرتی ہیں۔ ان کے مزاح میں شگفتگی کے ساتھ اصلاحی پہلو بھی جھلکتا ہے، جو ان کی تحریروں کو دیگر مزاح نگاروں سے ممتاز کرتا ہے۔ ان کی کتاب “خاکہ گردی” مزاحیہ اردو ادب میں خاکہ نگاری کا ایک منفرد اور قابل ذکر اضافہ ہے۔ یہ ان کی چوتھی کتاب ہے، جس میں 125 سے زائد خاکے شامل ہیں۔۔ کتاب میں 25 کے قریب خاکے ان کے احباب نے ان کے بارے میں لکھے ہیں، جب کہ باقی 100 سے زاٸد خاکے مصنف نے اپنے احباب، اساتذہ، شعرا، ادبا، کولیگز، دوستوں اور رشتہ داروں کے متعلق تحریر کیے ہیں۔ ان خاکوں میں نہ صرف ان کے ذاتی مشاہدات اور تجربات جھلکتے ہیں بل کہ زندہ معاشرتی کرداروں کا طنزیہ و مزاحیہ انداز میں بے لاگ تجزیہ بھی شامل ہے مثلاً:
”ان کی زبان پر ہر وقت عوام کی بہنوں بیٹیوں کا ہی ڈکر لذیذ ہوتا ہے(فقیر نکاحی)
”ہمارے پیر استاد کے پاس مرید دماغ بند کر کے آتے تھے اور ہمارے پاس موباٸل کھول کے آجاتے ہیں“ (حضرت گفتار غازی).
”تنظیمیں اپنے کارکنوں کی آنکھوں اور دماغ کا آپریشن کر کے ان کو اپنی عینک لگا دیتی ہیں“(طرار تاثیر)
خادم حسین مجاہد کے خاکوں میں طنز اور مزاح کا حسین امتزاج ہے انھوں نے نہایت باریک بینی سے معاشرتی ناسوروں اور افراد کے منفی پہلوؤں کو نمایاں کیا ہے۔ ان کے طنز میں نہ صرف گہرائی اور فکر انگیزی ہے بل کہ مزاح کے ذریعے قاری کو محظوظ کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ ان خاکوں میں معاشرتی رویوں، طبقاتی تضادات، اور انسانی کمزوریوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
کتاب کے چند اہم خاکے درج ذیل ہیں:
مجاہد بھانبڑوی
ضعیف قضا
میجر بھیڑیا
مجسم سٹیجوی
میری نصف بدتر
پورے گھر والی
چودھری ابن الوقت
خادم حسین مجاہد مرحوم
فقیر نکاحی
میاں خود کار
آخری درویش
مس مغرور باتونی
کتاب میں چاچا احمدی کے نام سے ایک پنجابی خاکہ بھی شامل ہےجو ان کے اردو خاکوں کی طرح ہی لذیذ ہے۔
مصنف اپنے خاکوں میں نہایت بے باکی سے بے لاگ انداز میں کرداروں کی خامیوں کو بیان کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خاکے محض تفریح کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اصلاح کا پہلو بھی رکھتے ہیں۔ خاص طور پر اپنے خاکوں میں وہ معاشرتی رویوں اور کرداروں پر شدید طنز کرتے ہیں۔ ان خاکوں میں FIR جیسا اثر پایا جاتا ہے۔ایسے خاکوں میں حاسد خبطی، مجسم سٹیجوی “بابا شونقی”، “ب دین”، “پیر جی”حافظ ہوشیار، نیم ملا، چودھری ابن الوقت ،مستری صاحبان،شان صاحب اور “مظفر حرامی”شامل ہیں۔ساتھ ساتھ ان کی کتاب میں کچھ ایسے خاکے بھی ہیں جو خالص مزاح کا شاہ کار ہیں مثلاً عاجز مسکین آبادی، قیس صحراٸی، سربلند ناطقی، شاہ جی اورغلام جیلانی اصغر وغیرہ۔ ان کے کچھ خاکوں سے اقتباسات دیکھیے:
”بندہ ایک بار فوجی ہوجاٸے تو تمام عمر فوجی ہی رہتا ہے بھلے ریٹاٸر ہو جاٸے“ (میرزا رقیب).
”جمہوریت میں دو گدھوں کی راٸے ایک مرد دانا کی راٸے پر فاٸق ہوتی ہے“ (مسٹرتوتی فرام نقار خانہ).
”جہاں ایک بار مستری لگ جاٸیں وہاں پہ دس سال چور بھی نہیں آتے (مستری صاحبان) خلاصہ کلام یہ ہے کہ “خاکہ گردی” ایک ایسی کتاب ہے جو اردو ادب کے قارئین کو نہ صرف ہنسنے پر مجبور کرتی ہے بل کہ انہیں اپنے اردگرد کے رویوں اور کرداروں پر نظر ثانی کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ خادم حسین مجاہد کی یہ کاوش اردو خاکہ نگاری میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے مطالعے سے قاری معاشرتی رویوں کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔خاکہ گردی کے علاوی خادم حسین مجاہد کی طنزومزاح پر مشتمل مزید تین کتب دست و گریباں، قلم آراٸیاں اور تاکا جھانکی شاٸع ہو چکی ہیں اور دو زیر ترتیب ہیں۔بچوں کے ادب میں حرمتِ وطن کے نام سے ان کی ایک کتاب شاٸع ہوچکی ہے جو حکومت پنجا ب نے دس ہزار کی تعداد میں شاٸع کرا کے پنجاب کے تمام ہاٸی اور ہاٸیر سیکنڈری سکولوں کی لاٸبریریوں کو دی۔مذید ان کی بچوں کے لیے کہانیوں کی پانچ کتب زیر طبع ہیں۔وہ شعبہ ٕ تدریس سے وابستہ ہیں اور کٸی رساٸل میں ادارتی خدمات بھی سرانجام دے چکے ہیں آجکل ماہنامہ حکایت لاہور کے اعزازی مدیر ہیں۔ یہ کٸی ادبی تنظیموں کے روح رواں بھی ہیں کٸی ایوارڈ اور اعزازات بھی لے چکے ہیں ان کے فن اور شخصیت پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے بھی لکھے جارہے ہیں ۔ طنز و مزاح پر ان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں، راقم الحروف خادم مجاہد کو طنز و مزاح کا چیف آف آخری اسٹاپ کا اعزازی لقب عطا کرتا ہے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔