غربت کے موضوع پر سعدیہ صبا کی نظمیہ شاعری کا تجزیاتی مطالعہ

غربت کے موضوع پر سعدیہ صبا کی نظمیہ شاعری کا تجزیاتی مطالعہ

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

سعدیہ صبا کا تعلق ملتان سے ہے، وہ ایف جی ڈگری کالج فار ویمن ملتان کینٹ کی بی ایس انگلش کی طالبہ ہیں۔ ان کی انگریزی نظم “Poverty” غربت کے موضوع پر بہترین شاعری ہے جس میں شاعرہ نے انسانوں اور معاشرت پر اس کے گہرے اثرات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نظم میں سعدیہ غربت کی تکلیف دہ حقیقتوں اور اس سے بچاؤ کے راستے کی جستجو کو شعری انداز میں بیان کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
سعدیہ صبا کی نظم “Poverty” کا بنیادی موضوع غربت کے انسانی زندگی پر تباہ کن اثرات ہیں۔ اس نظم میں شاعرہ نے نہ صرف غربت کے نفسیاتی اور جذباتی پہلوؤں کو بیان کیا ہے بلکہ اس کے دیرپا اور ہمہ گیر اثرات کو بھی اجاگر کیا ہے۔ سعدیہ کی شاعری میں ایک ایسی پکار سنائی دیتی ہے جو اس مسئلے کے حل کی تلاش پر زور دیتی ہے۔
سعدیہ کی یہ نظم مختصر اور جامع انداز میں لکھی گئی ہے جس میں سنجیدہ اور افسردہ دونوں لہجے نمایاں طور پر نظر آرہے ہیں۔ نظم کے اشعار چھوٹے اور مربوط ہیں جن میں ہم قافیہ ترتیب موسیقیت پیدا کرتی ہے اور قاری کو نظم کے ساتھ جوڑتی ہے۔
سعدیہ صبا نے نظم کے اثر کو بڑھانے کے لیے کئی ادبی محاسن کا بھی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے:
غربت کو “an umbra in a sidereal day” کہا گیا ہے، جو اس کی ہمہ گیر اور سایہ دار نوعیت کو ظاہر کرتا ہے۔
“Suggest me please how to avoid” کی تکرار شاعرہ کی بے بسی اور رہنمائی کی درخواست کو اجاگر کرتی ہے۔
غربت کو “ignite” یعنی شعلہ بھڑکانے والی قوت دی گئی ہے۔
“snatching blush and even smiles” میں الفاظ کی ترتیب شاعری کو ایک خاص ردھم عطا کرتی ہے۔
نظم میں غربت کے اثرات کو تصویری انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ “weeping eyes,” “stifled cries,” اور “snatching blush” جیسے الفاظ غربت کی شدت کو نمایاں کرتے ہیں۔ شاعرہ غربت کو زندگی کے اصولوں کو بند کرنے والی طاقت کے طور پر پیش کرتی ہیں، جو لوگوں کو مایوسی میں دھکیل دیتی ہے۔
نظم کے آخری اشعار ملاحظہ کیجئیے:
“Ah, poverty! For heaven’s sake! Do not be so prolonged, mate; let us mend our doomed fate!”
شاعرہ کی امید اور تبدیلی کی خواہش کو ظاہر کرتے ہیں۔ غربت کو “mate” یعنی ساتھی کہہ کر اس کی شخصیت نگاری کی گئی ہے، جسے ایک ناپسندیدہ ہمراہی کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس سے چھٹکارا پانا ضروری ہے۔
سعدیہ صبا نے اپنی نظم “Poverty” میں غربت کے موضوع پر ایک گہری نظر ڈالی ہے، جس میں جذباتی اظہار، ادبی محاسن، اور اثر انگیز انداز شامل ہیں۔ یہ نظم معاشرتی مسائل پر توجہ دلانے اور ان کے حل کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے سعدیہ صبا کی نظم پیش خدمت ہے۔
*
“POVERTY (POEM)”
*
Ah, poverty! What should I say? An umbra in a sidereal day? Brutally putting us in dismay, Thou hath made us vain hay!

Succumbing yearns, promising demise. Weeping eyes with stifled cries, Snatching blush and even smiles, Thou art spreading miles and miles.

Out shutting the principles of life, Suggest me please how to avoid, Suggest me please how to avoid? All the grievances you ignite!

Making us like an empty crate. Ah, poverty! For heaven’s sake! Do not be so prolonged, mate; let us mend our doomed fate!

اپنا تبصرہ لکھیں