خان شہید کی تحریک کا افق اور ماحولیاتی تحفظ کیلئے جدوجہد

خان شہید کی تحریک کا افق اور ماحولیاتی تحفظ کیلئے جدوجہد

طاہر زلاند

ابتداء میں موسمیاتی تبدیلی ایک سائنسی تجسس تھا، نہ کہ کوئی مسئلہ۔ سوانتے آرہینئیس، ایک سویڈش کیمیا دان، نے 1896 میں اپنی مشہور پیشنگوئی شائع کی کہ کوئلہ جلانے کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضا میں چھوڑ کر انسان زمین کو بتدریج کئی ڈگری گرم کر دے گا۔ اس وقت انہوں نے اس پر کوئی تشویش ظاہر نہیں کی۔ ان کے نتائج کو عمومی طور پر نظرانداز کر دیا گیا، یہاں تک کہ 1950 کی دہائی میں چند سائنس دانوں نے یہ نشاندہی کی کہ یہ گرمی تباہ کن اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
ایک دہائی بعد، نوجوان ماہر موسمیات، سیوکورو مانابے، نے آب و ہوا کی پہلی جدید کمپیوٹر نقول تیار کیں۔ ان کی پیش گوئی کے مطابق زمین کی حرارت کی شدت آرہینئیس کی پیش گوئی کے قریب تھی۔ مانابے کے کام کے بعد، ایک نئی سائنسی تحقیق کا آغاز ہوا جس نے بدلتے ہوئے موسمی حالات کے سنگین اثرات کی تصویر کشی کی۔ 1970 کی دہائی کے آخر تک، اس بات پر سائنسی اتفاق رائے قائم ہو چکا تھا کہ جب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار دوگنا ہو جائے گی تو زمین کتنی گرم ہو سکتی ہے۔
خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے بیسویں صدی کے اوائل میں انتہائی کم عمری میں قحط سالیوں اور ماحولیاتی نظام کے بگڑتے توازن کی وجہ سے رونما ہونے والے وبائی امراض اور قلت آب کی سرکوبی کیلئے رچائے جانے والے پسماندہ سماجی رسومات پر اپنی تشویش ظاہر کی تھی۔
اس وقت صرف چند پالیسی ساز اس طرف متوجہ تھے، لیکن آج، زمین کی بڑھتی ہوئی حرارت کو نظرانداز کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ ماحولیات کا تحفظ اور موسمیاتی تبدیلوں کے اثرات سے نمٹنا اس حوالے سے ہر طرح کا اقدام اور کوشش فرد اور اجتماع کی اہم معاشرتی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ 21 ستمبر 2024 کو کوئٹہ میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کےقومی جرگے کا اانعقاد کیا گیا َ۔ اس جرگے میں جہاں تنظیمی دستور و قوائد میں چند تبدیلیاں کی گئیں وہاں جدید انسانی ضروریات کو مقدم سمجھتے ہوئےمنشور میں بھی اہم نکات کو شامل کرنے کی منظوری دی گئی۔ اس میں سب سے اہم اقوام متحدہ کے2030 کے ایجنڈے اور پشتونخوا وطن میں زمین کی بڑھتی ہوئی حرارت، قلت آب، قدرتی حیات اور جنگلات کو درپیش خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کو اپنے منشور کے 14ویں نکتے کے طور پر شامل کیا گیا ہے جس کے مطابق،
موسمی تغیرات کے منفی اثرات، بارشوں کا غیر متوقع انداز سیلاب خشک سالی اور موسموں میں متوقع تغیر کی صورت میں نمودار ہونے شروع ہوگئے ہیں جو انسانی زندگی سمیت دیگر حیاتیاتی تنوع کیلئے خطرہ بن رہا ہے۔ اس کے منفی اثرات کی روک تھام کیلئے بین الاقوامی اور قومی سطح پر مؤثر انتظام کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کیلئے ماحولیات کے تحفظ کیلئے مؤثر اقدامات کئے جائیں گے۔ جس میں پانی اور قدرتی جنگلات کا تحفظ اور اس میں مزید اضافہ، شہری اور دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر شجرکاری ترجیحی بنیادوں پرمقامی تنوں اراضی (Land Use Planning ) کیلئے منصوبہ بندی ماحول دوست تعمیرات کیلئے ضابطے وضع کرنا، قابل تجدید توانائی کے منصوبے شروع کرنا اور بڑھتی ہوئی انسانی آبادی پر قابو پانے کیلئے خاندانی منصوبہ بندی کیلئے مؤثر اقدامات کرنا شامل ہیں۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے کلائمٹ چینج کے جس نکتے کو اپنے Focused ترجیحات میں شامل رکھا گیا اس نکتے کی اہمیت اور ضرورت کے حوالے سے سو سال پہلے پارٹی کے بانی خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ خان شہید ملتان جیل میں دوران قید تحریر کردہ اپنی سوانح حیات کے جلد اول میں رقم طراز ہیں اور لکھتے ہیں کہ،،
قحط کے دوران ہمارے گاؤں میں سینکڑوں لوگ پناہ لینے آئے۔ چونکہ حکومت کی طرف سے ان لوگوں کی مدد کے لیے کوئی انتظام نہیں تھا، مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے سب صبح و شام گاؤں کے گھروں میں جا کر مدد مانگتے۔ گاؤں والے اپنی استطاعت کے مطابق انہیں کچھ نہ کچھ دیتے۔
قحط نے پوری پشتونخوا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور ہر چیز کی قلت تھی۔ فصلیں اور گھاس اس لیے نہیں تھے کہ بارشیں نہیں ہوئی تھی۔ جس کے نتیجے میں نہروں اور چشموں کا پانی بھی کم ہو گیا تھا، پھل دار درختوں کو سردی نے تباہ کر دیا۔ لیکن اس سال ہم نے زیادہ مقدار میں جو کی کاشت کی تھی، اور اچھی پیداوار حاصل کی۔ ہم اس جو سے چھوٹی یا بڑی روٹیاں بنا کر آنے والے لوگوں کو دیتے۔ چھوٹے بچوں کو چھوٹی اور بڑوں کو بڑی روٹی دی جاتی۔
اکثر شام کو جب ہم کھانا کھانے کے لیے بیٹھ جاتے، تو بھوکے لوگوں کی آوازیں سنائی دیتیں۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی روٹی کا ایک حصہ توڑ کر ان کو دیتے بسا اوقات خود بھی پیٹ بھر کر نہ کھا پاتے۔
خان شہید اپنے علاقے میں بارشوں کے حوالے سے پائے جانے والے فضول رسموں پر گہری نظر رکھتے وہ لکھتے ہیں کہ
لاڈو لڑکیوں کی ایک رسم ہے جو بارش میں تاخیر کے وقت کی جاتی ہے۔ لڑکیاں ایک گڑیا بناتی ہیں، مخصوص گیت گاتے ہوئے گھروں میں جاتی ہیں اور اناج، آٹا یا پیسے اکٹھے کرتی ہیں۔ خواتین ان پر پانی چھڑکتی ہیں، اور جمع شدہ اشیاء سے اجتماعی کھانے کا انتظام کرتی ہیں۔
اسی طرح سپين ږيری مردوں کی ایک رسم ہے، جو کرسمس کے سانتا کلاز جیسی ہوتی ہے۔ مرد مصنوعی داڑھی لگا کر نوجوانوں کے ساتھ گھروں میں جاتے ہیں، مذاق کرتے ہیں اور خیرات مانگتے ہیں۔ یہ رسم عموماً شدید سردیوں کے دوران کی جاتی ہے جب بارش کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔
ان بے جا رسومات کو مزید جانچتے ہوئے خان شہید لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ گلستان کاریز میں ہیضے کی وبا پھیلی اور اتنی خطرناک ثابت ہوئی کہ چند ہی دنوں میں ڈیڑھ سو لوگ اس کا شکار ہوکر انتقال کرگئے۔ صرف چند افراد ہی صحت یاب ہو سکے ۔
وبا کے دوران حکومت نے علاج کی غرض سے کچھ انتظامات کئے، لیکن پشتونوں نے حکومت کے علاج پر اعتماد نہیں کیا۔ ان کا خیال تھا کہ سرکاری دوا بیماری کا علاج کرنے کے بجائے جان لے لیتی ہے۔ وہ اپنے مریضوں کو حکومت سے چھپاتے اور اسپتال لے جانے سے گریز کرتے۔ وہ خود جڑی بوٹیاں سے شربت بناتے اور مریضوں کو پلاتے، ساتھ ہی مولویوں سے دعائیں اور تعویذ طلب کرتے۔
مولوی اور پیر بھی اپنی سرگرمیوں میں کمی نہ کرتے۔ دن رات آزانیں دی جاتیں، رات کے وقت جلوس نکالے جاتے، جنہیں وہ “صدری” کہتے تھے۔ ان جلوسوں میں بلند آواز میں نعرے لگائے جاتے اور پشتو و فارسی میں دعائیں کی جاتیں۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ دعائیں کہاں سے آئی تھیں کیونکہ کسی کتاب میں ان کا ذکر نہیں ملتا، لیکن یہ عمل پورے پشتون علاقوں میں عام ہے۔
یہ رسمیں شاید اسلام سے پہلے کے دینی یا ثقافتی اثرات کی باقیات ہیں، جو ہندوؤں کے ساتھ بھی مشترک ہیں۔ وباؤں کے دوران ایسی رسومات اکثر نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں کیونکہ بیمار اور صحت مند افراد کا آپس میں ملنا بیماری کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے۔
حکومت نے وبا کے دوران متاثرہ علاقوں میں آنے جانے پر پابندی عائد کی، جسے پشتو میں “کرم ټېل” (quarantine) کہا جاتا ہے۔ لیکن پشتونوں کی باہمی محبت اور رشتہ داری ان پابندیوں پر حاوی رہی۔
خان شہید مزید لکھتے ہیں کہ ان سالوں کے دوران ایک اور وبا، جسے “انفلوئنزا” کہا جاتا تھا، پوری دنیا میں پھیلی، لیکن دیگر اقوام کے مقابلے میں اس نے پشتونوں پر بہت زیادہ تباہی مچائی۔ کئی افراد اس وبا کا شکار ہوکر انتقال کرگئے کیونکہ یہ لوگ بے یار و مددگار، کم علم اور منتشر تھے۔ ہمارے چھوٹے سے گاؤں، جو دو سو گھروں پر مشتمل تھا، میں اسی فیصد لوگ متاثر ہوئے، اور ایک سو گیارہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حالانکہ ہمارے گاؤں کے لوگ دیگر دیہاتی لوگوں کے مقابلے میں زیادہ تعلیم یافتہ اور باہمی اتحاد کے حامل تھے، اور یہاں ایک سرکاری اسپتال بھی موجود تھا۔
لیکن پہاڑوں اور صحراؤں سے ایسی خبریں آئیں کہ وہاں پورے کے پورے گاؤں ویران ہوگئے، کوئی زندہ نہ بچ سکا۔ ان علاقوں میں نہ تو لوگوں کو زندگانی کی تدبیر تھی۔ اور نہ ہی حکومت کو انکی کوئی پرواہ تھی۔ مریضوں کی دیکھ بھال تو درکنار، مردوں کی تجہیز و تدفین کا بھی کوئی انتظام نہ تھا۔ شرح اموات اس قدر بڑھ گئی تھی کہ قبریں کھودنے والے لوگوں کو قبرستانوں میں ہی رہنا پڑتا تھا۔ ہمارے اپنے گھر میں میری والدہ کے علاوہ سب بیمار ہوگئے۔ یہ بوڑھی پشتون خاتون اکیلے ہی سب بیماروں کی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔ پورے گاؤں میں ہر شخص اپنی پریشانی میں مبتلا تھا، کوئی مزدور دستیاب نہیں تھا۔ سب لوگ اپنے بیماروں اور مردوں کے مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ کھیتی باڑی اور دودھ دینے والے مویشی بھی بے یار و مددگار ہوگئے تھے۔
خان شہید کو سماجی سائنس کے دیگر پہلووں کے ساتھ اس بات کا بھی ادراک تھا کہ پشتون سرزمین اور انکا کلچر گوکہ ایک دن موسمیاتی تبدیلی کے نشانے پر آئے گا مگر اس سے پہلے اسے بات کا بھی اندازاہ تھا کہ پشتونخوا کی سرزمین کا ماحولیاتی نظام پشتونوں کے معاشرتی برتا ؤ اور کلچر کے نشانے پر ہیں۔ اور اس بات پر زور دیتے کہ یہ دنیا Cause and effect کے ضابطے سے منسلک ہے۔
خان شہید کے مشاہدے کے مطابق، قحط سالی ان کے علاقے میں ایک عمومی مسئلہ تھا جس کی شدت میں موسمیاتی حالات نے مزید اضافہ کیا۔ قحط کے دوران، بارش کی کمی کے باعث زراعت بری طرح متاثر ہوتی تھی اور لوگ خوراک کی قلت کا شکار ہو جاتے تھے۔ یہ غذائی بحران نہ صرف جسمانی بلکہ سماجی سطح پر بھی لوگوں کو کمزور کر دیتا تھا۔ ان کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ:
پانی کے ذرائع (کاریز اور چشمے) خشک ہونے لگتے، جس سے زراعت کی پیداوار مکمل طور پر رک جاتی۔
گاؤں کے لوگ خوراک کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتے، لیکن وسائل کی کمی نے سماجی ڈھانچے کو کمزور کر دیا۔
قحط سالی کے دوران لوگ روایتی رسم و رواج کے ذریعے مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے، جیسے “لاڈو” اور ” سپين ږيری ” کی ڈرامائی رسمیں۔
خان شہید نے واضح کیا کہ قحط سالی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات ان کی کمیونٹی پر اس لیے زیادہ شدید تھے کیونکہ یہ لوگ پہلے ہی معاشرتی پسماندگی اور حکومتی لاپرواہی کا شکار تھے۔ ان کے مشاہدے کے مطابق:
عوام کو بنیادی صحت کی سہولیات اور غذائی تحفظ حاصل نہیں تھا، جس کی وجہ سے وبائی امراض کے دوران ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن جاتے تھے۔
حکومتی توجہ نہ ہونے کے باعث لوگ غیر سائنسی اور غیر مستند علاج (دم، دعا اور جڑی بوٹیوں) پر انحصار کرتے تھے۔
عوامی شعور کی کمی اور برطانوی نوآبادیاتی حکومت کی غفلت نے مسائل کو مزید سنگین بنا دیا۔
خان شہید کے خیالات آج کے دور میں بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے ان کے زمانے میں تھے۔ موسمیاتی تبدیلی، قحط سالی، اور وبائی امراض کے مسائل اب عالمی سطح پر شدت اختیار کر چکے ہیں۔ خان شہید کا مشاہداتی تجربہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ ماحولیاتی مسائل سب سے زیادہ کمزور طبقے پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس لیے پالیسیوں کو سماجی مساوات پر مبنی ہونا چاہیے۔تعلیم اور عوامی آگاہی کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کا اہم ستون بنایا جائے۔ قدرتی آفات اور ماحولیاتی بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مقامی طور پر مربوط حکمت عملی وضع کی جائے۔
خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کا وژن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سماجی پسماندگی، ماحولیاتی بحران، اور حکومتی لاپرواہی کا حل صرف اجتماعی قومی جدوجہد اور شعور کی بیداری سے ممکن ہے۔ خان شہید کی تحریریں نہ صرف ماضی کی کہانیاں ہیں بلکہ ایک درس ہے کہ ہمیں موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔

اپنا تبصرہ لکھیں