ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں پاک فوج کے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی طرف سے 9 مئی 2023ء کے سانحے میں ملوث 60 مجرموں کو 2 تا 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے، جس کے بعد فوجی عدالتوں سے مذکورہ کیس میں سزا پانے والوں کی تعداد 85 ہو گئی ہے۔ قبل ازیں ہفتہ 21 دسمبر کو پاک فوج کے شعبہ اطلاعات (آئی ایس پی آر) نے 25 مجرموں کو سنائی گئی سزاؤں کے بارے میں آگاہی دی تھی۔ جمعرات 26 دسمبر کو جاری کئے گئے بیان میں شامل سزا یافتہ افراد کی فہرست کے بموجب سابق وزیرِاعظم عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کو 10 برس، بریگیڈیئر جاوید اکرم کو 6 جبکہ عباد فاروق اور گروپ کیپٹن (ر) وقاص احمد کو دو دو برس قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فوجی حراست میں لئے گئے 9 مئی کے ملزمان پر چلنے والے مقدمات کی سماعت متعلقہ قوانین کے تحت مکمل کر لی گئی ہے۔ تمام مجرموں کے پاس اپیل کا حق اور دیگر قانونی حقوق برقرار رہیں گے۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے شواہد کی جانچ پڑتال، مجرموں کے قانونی حق کی فراہمی اور قانونی تقاضوں کے مطابق سزائیں سنائی ہیں۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق 60 سزا یافتگان کی موجودہ فہرست میں فوج کے ریٹائرڈ افسران بھی شامل ہیں۔
اس فوجی عدالت کے فیصلے کے تناظر میں وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے نو مئی کیس کے فیصلے کو انصاف کا بول بالا قرار دیا ہے جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے فیصلے پر اپیل کا عندیہ دیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں پی ٹی آئی حکومت کے دور سمیت مختلف ادوار میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل ہوئے ہیں اور امریکہ سمیت 35 سے زائد ممالک میں فوجی عدالتیں کام کر رہی ہیں۔
تاریخی پس منظر کے طور پر دیکھا جائے تو فوجی عدالتوں کا قیام پاکستان میں ہمیشہ ایک حساس موضوع رہا ہے۔ ان عدالتوں کا بنیادی مقصد غیر معمولی حالات میں فوری انصاف فراہم کرنا اور ریاست کے خلاف سنگین جرائم میں ملوث افراد کو سزا دینا ہوتا ہے۔ 9 مئی کے واقعات نے قومی سطح پر گہرے اثرات مرتب کئے اور ان واقعات میں ملوث افراد کو کٹہرے میں لانے کے لئے فوجی عدالتوں کا سہارا لیا گیا۔
یہ بات ملحوظِ خاطر رہنی چاہئے کہ دنیا بھر میں آئینی و قانونی نظام مختلف سہی لیکن ہر ملک کے امن و ترقی میں اہم کردار اس کے قوانین کی پاسداری کا ہے۔ پاکستان میں فوجی عدالتوں کے فیصلے ہمیشہ تنقید اور حمایت دونوں کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ ان عدالتوں کے فیصلے کے قانونی اور اخلاقی پہلوؤں پر بحث جاری رہتی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست کی رٹ کو قائم رکھنے کے لئے بعض اوقات سخت فیصلے ناگزیر ہوتے ہیں۔
9 مئی کے سانحے کے بعد فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت اور فیصلے نے ایک بار پھر اس بحث کو جنم دیا ہے کہ کیا فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل ہونا چاہئے؟ پاکستان میں فوجی عدالتوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ عدالتیں غیر معمولی حالات میں قائم کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر 2015ء میں آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے کے بعد فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تاکہ دہشت گردی کے مقدمات میں فوری انصاف فراہم کیا جا سکے۔
یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق موجود ہے۔ سپریم کورٹ نے کئی مواقع پر فوجی عدالتوں کے فیصلوں کی توثیق کی ہے لیکن ساتھ ہی ان فیصلوں کے خلاف اپیل کے حق کو بھی برقرار رکھا ہے۔ اس تناظر میں 9 مئی کے کیس میں سزا پانے والے افراد کے پاس بھی اپیل کے تمام قانونی حقوق موجود ہیں۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق فوجی عدالتوں کے ذریعے انصاف کے عمل کو تیز تر کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ان عدالتوں کی کارروائی مکمل طور پر شفاف اور آئینی تقاضوں کے مطابق ہو۔ 9 مئی کے کیس میں فوجی عدالتوں کے فیصلے کو انصاف کے بول بالا کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ تمام قانونی تقاضے پورے کئے جائیں اور سزا پانے والے افراد کو اپیل کے حق سے محروم نہ کیا جائے۔
پاکستان میں قوانین کی بالادستی اور اداروں کے احترام کو یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں مل بیٹھ کر اپنے آئینی و قانونی نظام کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ ریاست کے خلاف کسی بھی قسم کی سرگرمیوں کا مؤثر طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔ فوجی عدالتوں کے فیصلے چاہے کتنے ہی متنازع ہوں یہ حقیقت ہے کہ ان کا مقصد ریاست کی رٹ کو قائم رکھنا اور امن و امان کو بحال کرنا ہوتا ہے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.comاور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے