ذوالفقار احمد چیمہ: طنز و مزاح کا آئی جی

ذوالفقار احمد چیمہ: طنز و مزاح کا آئی جی

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

علامہ عبدالستار عاصم نے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم سے ذوالفقار احمد چیمہ کی طنز و مزاح پر مبنی خوبصورت کتاب “پس پردہ” شائع کی ہے جس میں اکیس طنزیہ و مزاحیہ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ جن میں پاکستانی معاشرت، سیاست اور بیوروکریسی کے پس پردہ پہلوؤں کو طنزیہ و مزاحیہ انداز میں بے نقاب کیا گیا ہے۔ مصنف نے اپنی زندگی کے تجربات کو مزاح کے رنگ میں ڈھال کر قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف قہقہوں کا خزانہ ہے بلکہ قارئین کے لیے غور و فکر کے کئی دریچے بھی کھول دیتی ہے۔
کتاب میں ایسے مضامین شامل ہیں جس میں مصنف نے عام زندگی کے دلچسپ واقعات اور تلخ حقیقتوں کو مزاحیہ انداز میں بیان کیا ہے، جیسے “ایس پی نامہ”، “سابقہ پالیسی جاری رہے” اور “آج تو کریلے ہی پکیں گے” وغیرہ وغیرہ۔
پس پردہ کا مرکزی موضوع معاشرتی اور سماجی مسائل کو طنز و مزاح کے ذریعے پیش کرنا ہے۔ مصنف نے خاص طور پر اشرافیہ، بیوروکریسی اور عوامی رویوں کی خامیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ کتاب کا ہر مضمون ایک منفرد کہانی اور سبق لیے ہوئے ہے جس میں مصنف معاشرتی رویوں اور ناانصافیوں پر روشنی ڈالتا ہے۔
انور مسعود کے لکھے گئے دیباچے اور محمد اظہارالحق و ظفر حسن رضا کی آراء کتاب کی ادبی حیثیت کو مزید اجاگر کرتی ہیں۔
ذوالفقار احمد چیمہ نے طنز و مزاح کی کلاسیکی تکنیکوں کو استعمال کیا ہے۔ ان کے مضامین میں پطرس بخاری اور مشتاق احمد یوسفی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
کتاب میں سماجی مسائل اور اشرافیہ کے رویوں پر طنز کیا گیا ہے، جیسے “لفافہ کلچر” اور “سابقہ پالیسی جاری رہے” وغیرہ وغیرہ۔
روزمرہ کے عام واقعات کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے جیسے “آج تو کریلے ہی پکیں گے”۔
مصنف نے جگہ جگہ استعاروں اور کنایوں کا استعمال کیا ہے جو مضامین کو مزید دلچسپ بناتے ہیں۔
کتاب میں سماجی مسائل کی بھر پور انداز میں عکاسی کی گئی ہے۔ کتاب میں موجود مضامین سماج کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں جنہیں عام طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مثلاً “دیہاتی سیاست” میں دیہات کی سیاست کے تضادات کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
کتاب میں بیوروکریسی کی حقیقت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ “ایس پی نامہ” اور “سابقہ پالیسی جاری رہے” جیسے مضامین میں مصنف بیوروکریسی کے نظام پر طنز کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور اس کے پیچیدہ معاملات کو دلچسپ انداز میں پیش کرتا ہے۔
کتاب کا ادبی معیار اعلیٰ ہے۔ مصنف نے نہ صرف طنز و مزاح کے اعلیٰ اصولوں پر عمل کیا ہے بلکہ قاری کو ہنساتے ہوئے معاشرتی مسائل پر سوچنے پر مجبور بھی کیا ہے۔
کتاب کا طنزیہ و مزاحیہ اسلوب عام قاری کو بھی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ مضامین کی ترتیب اور ان کے موضوعات قاری کو بور ہونے کا موقع ہی نہیں دیتے۔
ذولفقار احمد چیمہ کی کتاب پس پردہ طنز و مزاح کی ایک شاندار تخلیق ہے جو قاری کو ہنساتے ہنساتے سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔ ذوالفقار احمد چیمہ نے اپنی تحریروں میں نہایت مہارت سے معاشرتی اور سیاسی مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ یہ کتاب اردو ادب میں طنز و مزاح کے حوالے سے ایک اہم اضافہ ہے اور ہر طبقے کے قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔
پروفیسر انور مسعود کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں “اکیسویں صدی کے دلچسپ واقعات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک نہایت نامور بیوروکریٹ اور مثالی پولیس افسر جناب ذوالفقار احمد چیمہ نے اکیس مزاحیہ مضامین تحریر کر ڈالے ہیں۔ گویا نثری مزاح میں یہ اکیس توپوں کی سلامی ہے چیمہ صاحب نے ان مضامین کی ابتدا میں پطرس بخاری اور مشتاق احمد یوسفی صاحب کا ذکر بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ کیا ہے۔ خطبہ استقبالیہ میں یوسفی صاحب کے گھر کا پتا ٹریس کرنے کے لیے پولیس کی سراغ رسانہ کار کردگی کا احوال بڑا حیرت آور اور تبسم خیز ابتدائیہ ہے اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے۔ “چند روز گزرے تو ان میں سے ایک نوجوان ایس پی کا جواب موصول ہوا۔ لکھا تھا جناب عالی! مشتاق احمد نامی آدمی کا پتا ڈھونڈنے کے لیے مقامی ایس ایچ او کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی، جس نے اس کام کے لیے ایک خواندہ حوالدار کی ڈیوٹی لگائی۔ حوالدار مذکور نے شرفا کے کئی محلوں میں تلاش کیا مگر کامیابی نہ ہوئی پھر اُن محلوں میں بھی تلاش کیا گیا جہاں شرفا جاتے تو ہیں مگر جانے کا اقرار نہیں کرتے مگر ہر طرف سے رپورٹ بل موصول ہوئی ہے۔ لہذا ہماری طرف سے جواب نیل ہی سمجھا جائے۔ قارئین محترم! ذوالفقار چیمہ صاحب پاکستان کے ان افسران میں سے ہیں جن کی بہادری، فرض شناسی اور دیانتداری قابل تحسین بھی ہے اور قابل تقلید بھی”۔
محمد اظہار الحق لکھتے ہیں”ذوالفقار احمد چیمہ کا نام قرطاس و قلم کی دنیا میں نیا نہیں ہے۔ ایک عرصہ سے دو قومی سطح کے پرنٹ میڈیا میں لکھ رہے ہیں۔ ان کے مضامین کے دو مجموعے اُردو میں اور ایک انگریزی میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی صاف گوئی کو قوم کے ہر طبقے نے پسند کیا ہے۔ جو چیز ذوالفقار چیمہ کو بہت سے دوسرے لکھاریوں میں ممتاز کرتی ہے وہ ان کا پولیس کے شعبے میں طویل اور وسیع تجربہ ہے۔ پولیس سروس میں نیک نام افسروں کی فہرست جب بھی بنائی جائے گی ذوالفقار چیمہ کا نام غیر متنازعہ طور پر سر فہرست ہو گا۔ زیر نظر مضامین میں انھوں نے اپنے اس تجربے کو عوام کے ساتھ شیئر کیا ہے اور استعاروں کنایوں کے بغیر، عام فہم انداز میں اس طرح شیئر کیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے ساتھ ساتھ ، عام لوگ بھی لطف اٹھا سکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان مزاحیہ اور طنزیہ تحریروں میں نوحہ خوانی بھی ہے اور آہ و بکا بھی! ہماری نام نہاد اشرافیہ اندر سے کس قدر اتھلی اور کھوکھلی ہے، ہماری سول سروس میں کسی قدر کم تعداد شرفا کی ہے اور زیادہ تعداد ضمیر فروشوں کی ہے۔ ہمارے عوام اپنے منتخب نمائندوں سے کیا کیا اور کس کس سطح کے فوائد اٹھاتے ہیں”.
ظفر حسن رضا لکھتے ہیں”ذوالفقار چیمہ کی جرات نویسی لفافے کے طور پر مضمون کیا کرتے تھے مگر ذوالفقار چیمہ کے مضمون الفافہ میں یہ دکھایا گیا ہے کہ وہ لفافہ معاشرے کی بگڑی ہوئی قدروں میں رومان کے درجے سے اتر کر کس طرح خلجان کے درجے تک آگیا ہے اب جب وہ کئی اور منفی علامتوں کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے مثلاً سرکاری دفتروں میں رشوت میں دی جانے والی رقم کے لیے استعارے کے طور پر مستعمل لفافہ جو اب سرکاری ایوانوں سے نکل کر دنیائے صحافت میں اپنی کرشمہ سازی کر رہا ہے اس سے لفافہ کلچر جیسی اصطلاحات وجود میں آئیں ۔ یہاں ایک اور لفافہ بھی ہے جو ذوالفقار چیمہ نے اپنے واقعاتی مضمون میں دریافت کر کے اسے اپنی طنز کے نشانے پر لیا ہے۔ یہ وہ لفافہ ہے جس میں شادی بیاہ میں میزبان کو دی جانے والی نقد رقم ڈال کر میزبان یا دولہا کو ہدیہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس لفافہ دہی کے عمل کو مصنف نے اپنے مخصوص اور دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ تقریب رونمائی میں بڑے دلچسپ انداز میں بتایا گیا ہے کہ ایک سینئر پولیس افسر کو کتاب کا مصنف کہلوانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس کی ہر سطر میں مصنف کے تخیل کی پرواز اور اظہار کی قدرت اور شگفتگی ملتی ہے۔ مزاح نگاری، سنجیدہ ادب تحریر کرنے کی بہ نسبت ایک مشکل صنف ادب ہے اس لیے اس میں تخلیقات کا میدان زیادہ تر خالی رہتا ہے۔ ذوالفقار چیمہ نے اس میدان میں اپنے تازہ مضامین کے ساتھ جو ریڈ (Raid) کیا ہے، وہ اس شعبہ ادب میں ایک نمایاں اور قابل قدر اضافہ ہے۔ جس کو اہل فن و ادب بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور قارئین اس کی بے حد پذیرائی کریں گے۔ یقیناً اس کی بازگشت ایک عرصے تک قارئین کی زبانوں، ناقدین کے بیانوں اور سرکاری ایوانوں میں سنائی دیتی رہے گی”۔
مصنف لکھتے ہیں”اس کتاب کے لیے مضامین کا انتخاب کر لیا گیا تو پہلی تینوں کتابوں کے برعکس میں نے مکرم و محترم پروفیسر انور مسعود صاحب سے دیباچہ لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جسے انھوں نے کمال شفقت شرف قبولیت بخشا۔ تمام مضامین کا جائزہ لینے کے بعد نہ صرف دیباچہ تحریر کیا بلکہ کتاب کا نام بھی تجویز کر دیا۔ پس پردہ کہ ان کے خیال میں ان مضامین میں معاشرے کے بااثر اور مقتدر افراد کے پس پردہ چہروں اور سوچ کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ میں پروفیسر انور مسعود صاحب کی شفقت اور عنایت پر ان کا بے حد سپاس گزار ہوں۔ کتاب میں منفرد اسلوب کے معروف شاعر، کالم نگار اور سابق بیوروکریٹ جناب اظہار الحق صاحب کا مختصر تبصرہ اور شعر و ادب کے رمز شناس اور ریٹائرڈ سول سرونٹ ظفر حسن رضا صاحب کا تعارفی مضمون بھی شامل ہے۔ محترم اظہار الحق صاحب کو چار مضامین (ٹوکرا ذرا بڑا سا ہو، تقریب رونمائی، ایس پی نامہ اور پیجا خود سنبھال لے گا) بھیجے گئے تھے، انھوں نے چاروں میں سے ایس پی نامہ کو سب سے زیادہ نمبر دیے ہیں۔ ان کی مشفقانہ رائے پر میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں۔ برادرم ظفر حسن رضا کئی مضامین کی نوک پلک درست کرنے کے علاوہ الفاظ اور فقروں میں ترمیم و اضافہ کرنے میں بھی مفید مشوروں سے نوازتے رہے۔ انھیں چھ مضامین بھیجے گئے تھے جن پر انھوں نے تفصیلی تبصرہ تحریر کیا ہے، انھوں نے بھیجے گئے مضامین میں سے سابقہ پالیسی جاری رہے“ کو بہترین تحریر قرار دیا ہے۔ میں ان کے مفید مشوروں اور تبصرے پر ان کا شکر گزار ہوں۔ کتاب کے لیے کی پیکچرز (Caricatures) بنانے پر میں اپنے دیرینہ دوست اور ملک کے نامور کارٹونسٹ جاوید اقبال صاحب کا تہ دل سے شکر گزار ہوں”۔
پروفیسر ذوالفقار احمد چیمہ صاحب پاکستان کے ان افسران میں سے ہیں جن کی بہادری، فرض شناسی اور دیانتداری قابل تحسین بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔ وہ سول سروس کے ایک رول ماڈل ہیں۔ وہ اتنی اصلی شخصیت کے حامل ہیں کہ ان کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں۔ ان کے بارے میں بہت درست کیا گیا ہے کہ وہ پولیس سروس کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ان مضامین میں چیمہ صاحب نے ایک ایسا آئینہ فراہم کیا ہے جو ہماری سیاسی اور سماجی بدعنوانیوں اور ناہمواریوں کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ اس آئینے میں دیکھتے جائیے، یہاں کی الیکشن بازی، دھونس، ریس کی ریس، افسروں اور وزیروں کی مہمل تقریریں، کینسل ہوتے ہوئے تبادلے، پھیپھڑے آزماتے ہوئے ٹی وی اینکر۔۔۔۔پھلوں کے بڑے بڑے ٹوکرے…. گھریلو پیکار انگیز کریلے، دھرنے، نذرانے، ماہانے، جہالت سے لبریز کتاب کی رونمائیاں، گریڈ گردی، نمائشی تقریبات، جعلی پیروں کی مکروہ تعویذ نویسی اور نام نہاد معزز شہریوں کے بد نما اور کراہت انگیز چہرے … سبھی کچھ تو دکھائی ہے رہا ہے”۔
محمد اظہار الحق رقمطراز ہیں”ذو الفقار احمد چیمہ کا نام قرطاس و قلم کی دنیا میں نیا نہیں ہے۔ ایک عرصہ سے دوقومی سطح کے پرنٹ میڈیا میں لکھتے رہے ہیں۔ ان کے مضامین کے دو مجموعے اُردو میں اور ایک انگریزی میں شائع ہو چکے ہیں ان کی صاف گوئی کو قوم کے ہر طبقے نے پسند کیا ہے۔ ان مضامین میں انھوں نے اپنے تجربے کو عوام کے ساتھ شیئر کیا ہے اور استعاروں کنایوں کے بغیر، عام فہم انداز میں اس طرح شیئر کیا ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ طبقے کے ساتھ ساتھ، عام لوگ بھی لطف اٹھا سکتے ہیں”۔
ظفر حسن رضا لکھتے ہیں”ذو الفقار چیمہ پیشے کے لحاظ سے سول سرونٹ ہیں لیکن ذوق کے اعتبار سے قلم کار۔ قانون کی حکمرانی کا معاملہ ہو تو وہ تیغ بدست ہوتے ہیں لیکن جب مزاح کی طرف آتے ہیں تو خندہ بلب اور گل بداماں نظر آتے ہیں۔ سول سروس میں یہ امتزاج انوکھی مثالوں میں سے ایک ہے۔ مزاح اور مزاج کی شگفتگی ان کی شخصیت کا حصہ ہیں۔ حس مزاح ان میں فطری ہے اور ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔ ان کی نظر میں مشاہدے کی گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی، اور اسے اظہار میں ڈھالنے کا انہیں جو ملکہ اور عبور حاصل ہے، اس میں فطری جھلک نظر آتی ہے”۔
میں کتاب کے پبلشر علامہ عبدالستار عاصم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور کتاب کے مصنف کو “طنز و مزاح کا آئی جی” خطاب عطا کرتا ہوں۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں