ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
انٹرنیٹ کی موجودہ دنیا میں انقلاب آنے والا ہے۔ تیز رفتار اور قابل اعتماد انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کسی بھی ملک کی معیشت، سماجی ترقی اور عالمی روابط کے لیے ناگزیر ہو چکی ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کی حالیہ سست روی، حکومتی فائر وال اور سب میرین کیبل کی خرابی نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے جنہیں حل کرنے کے لیے “افریقہ ٹو کیبل پروجیکٹ” کا آغاز ایک اہم قدم ہے۔
افریقہ ٹو کیبل پروجیکٹ دنیا کے سب سے بڑے زیر سمندر نیٹ ورک پر مشتمل نیٹ کیبل ہے، جو 45,000 کلومیٹر طویل کیبل اور 46 لینڈنگ اسٹیشنز کو جوڑتا ہے۔ پاکستان میں اس کا لینڈنگ مقام ہاکس بے اور کیماڑی ٹاؤن کراچی میں ہوگا جو اس منصوبے کو پاکستان کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں ایک اہم سنگ میل بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
یہ منصوبہ نہ صرف انٹرنیٹ کی رفتار اور معیار کو بہتر بنائے گا بلکہ پاکستانی معیشت کو بھی تقویت دے گا۔ پچھلے کچھ عرصے میں انٹرنیٹ کی سست روی نے فری لانسرز، گھروں سے کام کرنے والے افراد اور بین الاقوامی کمپنیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ افریقہ ٹو کیبل پروجیکٹ کے ذریعے ان مسائل پر قابو پانے کے امکانات روشن نظر آرہے ہیں۔
اس نیٹ ورک کی تکمیل سے پاکستان پر مندرجہ ذیل معاشی اور سماجی اثرات مرتب ہونگے:
سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔ انٹرنیٹ کی بہتر دستیابی اور رفتار سے فری لانسرز اور آن لائن کاروبار کو فروغ ملے گا جس سے زرمبادلہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔
تیز رفتار انٹرنیٹ کے ذریعے پاکستانی کاروبار عالمی منڈیوں سے بہتر طور پر جڑ سکیں گے۔
ڈیجیٹل تعلیمی مواد اور تحقیق تک رسائی میں آسانی ہوگی جو تعلیمی میدان میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔
لیکن ان سب فوائد کے باوجود کچھ چیلنجز اور خدشات بھی ہیں۔ جن میں انتظامی مسائل بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں انفراسٹرکچر کے حوالے سے انتظامی چیلنجز اکثر ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر کا سبب بنتے جارہے ہیں۔
تیز رفتار انٹرنیٹ کے ساتھ سائبر حملوں کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے جامع پالیسیز درکار ہوں گی۔
بہتر انٹرنیٹ سروسز کے ساتھ ممکنہ طور پر قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے جو کم آمدنی والے صارفین کے لیے مشکلات پیدا کرے گا۔
افریقہ ٹو کیبل پروجیکٹ پاکستان کے ڈیجیٹل مستقبل کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ یہ منصوبہ انٹرنیٹ کی رفتار اور معیار کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ تاہم اس کے کامیاب نفاذ کے لیے انتظامی مسائل اور سائبر سیکیورٹی کے خدشات کو دور کرنا ضروری ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے اس منصوبے کو بروقت اور مؤثر طریقے سے مکمل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ پاکستان کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو عالمی معیار کے قریب لے جا سکتا ہے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔